گزشتہ برس نومبر میں پر اسرار طور پر لاپتہ ہونے والے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ادریس خٹک کے خلاف حکام نے فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا عندیہ دیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی عدالت میں ایک روز قبل ادریس خٹک کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران وفاقی وزارتِ دفاع کے ایک عہدیدار نے ایڈووکیٹ جنرل کے ذریعے سر بہمر لفافے میں جواب دائر کیا۔
ادریس خٹک کے وکیل لطیف آفریدی کے مطابق حکام نے ادریس خٹک کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت مقدمہ چلانے کا عندیہ دیا ہے۔
لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ لہٰذا اب کسی بھی شخص کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ اُسی صورت میں چلایا جا سکتا ہے کہ جب کسی سویلین شخص کے ساتھ ساتھ فوج میں فرائض انجام دینے والا کوئی دوسرا ملزم ہو۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت ملزم کو جرم ثابت ہونے پر عمر قید یا 10 سال کی سزا دی جا سکتی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ میں سوموار کو ہونے والی سماعت میں ادریس خٹک کی جانب سے وکیل لطیف آٖفریدی اور طارق افغان نے ان کی وکالت کی۔
چیف جسٹس سیٹھ وقار احمد نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ دیکھنے کے بعد عدالت فیصلہ کرے گی جب کہ عدالت نے مقدمے کی سماعت دو اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کے خیبر پختونخوا کے سربراہ شاہد محمود نے ادریس خٹک کے پر اسرار طور پر غائب ہونے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور حراست میں رکھنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں کمیشن بہت جلد اعلامیہ جاری کرے گا۔
ادریس خٹک نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صوبائی سیکریٹری جنرل بھی ہیں۔
نیشنل پارٹی کے سرگرم مقامی رہنما قیصر خان نے بھی ادریس خٹک کے پراسرار طور پر غائب ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُنہیں ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے۔
مرکزی یا صوبائی حکومت نے ادریس خٹک کے پراسرار طور پر غائب ہونے یا ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کے بارے میں کسی قسم کا باضابطہ بیان جاری نہیں کیا اور نہ ہی ان کے خلاف الزامات کو مشتہر کیا ہے۔