رسائی کے لنکس

اقلیتی حقوق کمیشن کی تشکیل کی حمایت پر قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں: شیریں مزاری


وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ انہیں اور ان کی بیٹی کو اکثر و بیشتر سوشل میڈیا پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو)
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ انہیں اور ان کی بیٹی کو اکثر و بیشتر سوشل میڈیا پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ اقلیتی حقوق کمیشن کی تشکیل کی حمایت کرنے پر انہیں قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں ڈاکٹر شیریں مزاری نے بتایا کہ اقلیتوں کی حمایت کرنے اور اقلیتی کمیشن تشکیل دینے پر انہیں گزشتہ کئی ہفتوں سے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کا خصوصی اجلاس کمیٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں ہوا۔ یہ اجلاس سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے معاملے پر طلب کیا گیا تھا۔

حکومت نے حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقلیتی حقوق کمیشن تشکیل دیا ہے جس میں ہندو، سکھ اور مسیحی برادری سمیت پاکستان میں بسنے والی دیگر اقلیتیوں کی نمائندگی موجود ہے۔

'تحریکِ انصاف سوشل میڈیا مہم میں ملوث نہیں'

خواتین صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے معاملے پر بیان دیتے ہوئے وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ ان کی جماعت تحریک انصاف کا میڈیا سیل خواتین صحافیوں پر حملوں میں ملوث نہیں ہے۔ ان کے بقول سیاسی قیادت کو اپنے کارکنان کو سخت پیغام دینا ہو گا کہ وہ گالم گلوچ بند کریں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ انہیں اور ان کی بیٹی کو اکثر و بیشتر سوشل میڈیا پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی نے خواتین صحافیوں کے مشترکہ بیان کا نوٹس لیا تھا۔ اس بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ایسے افراد جو سوشل میڈیا پر حکمران جماعت تحریک انصاف کی حمایت کرتے ہیں وہی حکومت پر تنقید کرنے کی وجہ سے خواتین صحافیوں کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔

پاکستان میں آزادی اظہار کی صورتحال بد سے بدتر
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:27 0:00

کمیٹی میں خواتین صحافیوں کے بیان ریکارڈ

انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ خواتین صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کا ملبہ کسی ایک جماعت پر نہیں ڈالا جا سکتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست نے خواتین سے نفرت کو ہوا دے کر اسے سینسر شپ کے آلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

کئی عالمی صحافتی تنظیمیں عرصۂ دراز سے پاکستان کو صحافت کے لیے خطرناک ملک قرار دیتی رہی ہیں البتہ گزشتہ برسوں میں صحافیوں کو درپیش خطرات کی نوعیت تبدیل ہوئی ہے۔

پاکستان میں حکومت یا ریاستی اداروں کے ناقد سماجی کارکنوں یا صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر منظم مہم کی شکایات عام ہیں جب کہ کئی خواتین صحافیوں کا یہ بھی گلہ رہا ہے کہ ان کے بارے میں غیر شائستہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

'جمہوریت پسند صحافیوں کو تنہا کیا جا رہا ہے'

انسانی حقوق کمیٹی کے اراکین نے خواتین صحافیوں کے ہراساں کیے جانے کے بیانات سننے پر ان سے اظہار ہمدردی کیا۔

خواتین صحافیوں کا کہنا تھا کہ کردار کشی کیے جانے کے باعث سماجی سطح پر مشکلات کا سامنا ہے اور صحافتی ذمہ داری انجام دینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

خواتین صحافیوں کا کہنا تھا کہ وہ ایسے رویوں کا عرصہ دراز سے سامنا کر رہی تھیں لیکن حالیہ برسوں میں اس میں شدت آئی ہے اور ایک منظم انداز میں ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔

حالاتِ حاضرہ کے پروگرام کی میزبان عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ایک منظم سازش کے تحت جمہوریت پسند صحافیوں کو معاشرے میں تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں انہیں کالعدم لشکرِ جھنگوی، طالبان اور داعش سے دھمکیاں ملتی رہیں لیکن وہ خوف زدہ نہیں ہوئیں۔ تاہم گالیاں سننے سے ڈر لگتا ہے کیوں کہ خواتین کے ساتھ خاندان کی عزت وابستہ ہوتی ہے۔

عاصمہ شیرازی نے بتایا کہ بہت سی خواتین صحافیوں نے ان حملوں کے باعث خود ساختہ سینسر شپ اختیار کر لی ہے اور کئی صحافت چھوڑ کر گھر بیٹھ گئی ہیں۔

صحافی محمل سرفراز نے کہا کہ ان کے خلاف مہم کا آغاز حکومتی رہنماؤں اور ترجمان کی جانب سے کیا جاتا ہے جسے تحریکِ انصاف کے حامی افراد بڑھاوا دیتے ہیں۔

صحافیوں کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی' نے گزشتہ سال نومبر میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ آن لائن ہراساں کیے جانے کے واقعات سے 95 فی صد خواتین صحافیوں کا کام متاثر ہوا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہراساں کیے جانے اور دھمکیوں سے تنگ آ کر کئی خواتین نے خود ساختہ سنسر شپ لاگو کر لی ہے۔

دنیا بھر میں آزادی صحافت کی صورت حال
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:12 0:00

خواتین صحافیوں کے ثبوت فراہم کرنے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا عندیہ

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے خواتین صحافیوں کے بیانات سننے کے بعد کہا کہ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ کے ماحول کو صرف حکومت بہتر نہیں کر سکتی بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو کردار ادا کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ہراساں کرنے کے واقعات خواتین صحافیوں کو غیر محفوظ بنا دیتے ہیں جس کی وہ بھر پور مذمت کرتی ہیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس قسم کے رویے اور اقدامات کسی صورت قبول نہیں کیے جا سکتے۔

ان کے بقول خواتین صحافیوں کی جانب سے ثبوت فراہم کرنے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

شیریں مزاری کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر صرف خواتین صحافی ہی نہیں بلکہ خواتین سیاست دان بھی گالم گلوچ کی زد میں ہیں اور بعض اوقات صحافی بھی سیاست دانوں کی تضحیک کرتے ہیں جو ذمہ دارانہ رویے کا عکاس نہیں ہے۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے بنایا گیا جرنلسٹ پروٹیکشن بل آئندہ ماہ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد قانون بن جائے گا جب کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے قانون سازی بھی جلد کی جائے گی۔

قانون نہیں، عمل درآمد چاہتی ہیں

ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'بولو بھی' کی ڈائریکٹر فریحہ عزیز نے کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کی روک تھام میں ناکام رہا ہے۔ تاہم وہ کسی قسم کی نئی قانون سازی کا مطالبہ نہیں رکھتیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) متاثرین کو مزید متاثر کر رہا ہے اور خواتین صحافی نہیں چاہتیں کہ ان کے مشترکہ بیان کو جواز بنا کر سینسر شپ کو بڑھا دیا جائے۔

انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیکا قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے رپورٹ ایف آئی اے کو ہر 6 ماہ کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کرنا ہوتی ہے لیکن اس قانون کے بننے کے بعد سے اب تک اس پر عمل نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان میں رپورٹ پیش نہ کیے جانے کے باعث ہی خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہماری مذہبی روایات اور ثقافتی اقدار اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ خواتین کے ساتھ نامناسب مناسب رویہ اختیار کیا جائے جس پر وہ خواتین صحافیوں سے معذرت کرتے ہیں۔

انہوں نے خواتین صحافیوں کے بیانات ایف آئی اے کو ارسال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومتی اداروں کو اس معاملے میں جواب دہ بنائیں گے۔

قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین نے کہا کہ خواتین صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کو کسی ایک جماعت سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔ نہ ہی یہ واقعات حالیہ دنوں میں شروع ہوئے ہیں۔

انسانی حقوق کمیٹی نے خواتین صحافیوں کو سوشل میڈیا پر ہراساں کرنے اور ان کے خلاف جنسی بنیاد پر حملے رکوانے کے لیے وزارت اطلاعات اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے حکام کو آئندہ اجلاس میں طلب کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG