پاکستان میں صحافتی تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے صحافیوں کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرنے کی مذمت کی ہے۔ یہ مقدمات ایک ایسے وقت میں درج ہوئے ہیں جب حالیہ دنوں میں پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 'ففتھ جنریشن وار فیئر' کو بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان پر مقدمات آزادیٔ اظہارِ رائے پر پابندی لگانے کی کوشش ہے جب کہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صرف ایک ہی ادارہ مضبوط باقی بچا ہے جسے کمزور کرنے کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حالیہ دنوں میں دو مرتبہ 'ففتھ جنریشن وار فیئر' کی بات کی جس میں اُن کا کہنا تھا کہ فوج کے ادارے کو کمزور کرنے کے لیے اس کو بدنام کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔
آرمی چیف نے یہ دونوں بیانات چھ ستمبر کو منعقدہ تقریب اور اس کے بعد کور کمانڈرز کانفرنس کے دوران دیے۔
اگرچہ آرمی چیف نے کسی ملک، ادارے یا شخص کا نام تو نہیں لیا۔ البتہ اس بیان کے بعد اب تک تین مختلف صحافیوں کے خلاف فوج کو بدنام کرنے کے الزام کے تحت غداری کے مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔
جن افراد کے خلاف مقدمات درج ہوئے ان میں سابق چیئرمین پیمرا اور سینئر صحافی ابصار عالم، انگریزی اخبار 'ایکسپریس ٹریبون' سے وابستہ بلال فاروقی اور 'سما ٹی وی' کے پروڈیوسر اسد علی طور شامل ہیں۔
کیا پاکستانی فوج کو بدنام کیا جا رہا ہے؟
اس بارے میں پاکستانی فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ اس 'وار فیئر' سے ملک کے واحد مضبوط ادارے کو کمزور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
امجد شعیب نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عوام اور فوج کے درمیان دوریاں ہوجائیں اور لوگ سوچیں کہ فوج صرف لوٹ رہی ہے۔ تو اس کا نتیجہ بہت خطرناک ہے۔
انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ایک بار فوج کی گاڑیاں خریدنے کا ایک خط سوشل میڈیا پر منظم انداز میں پھیلایا گیا اور جب اس خبر کو پھیلانے کا ذریعہ معلوم کیا گیا تو ہتا لگا امریکہ میں موجود ایک شخص نے یہ جعلی خط بنایا اور پھیلایا تھا۔
ان کے بقول پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کے علاوہ بعض صحافی بھی اس خط کو پھیلانے میں پیش پیش تھے۔ لیکن یہ خط جعلی تھا۔ اس کے ذریعے فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
ففتھ جنریشن وار فیئر ہے کیا؟
دنیا بھر میں جنگوں کے مختلف طریقہ کار اور ماڈلز اپنائے گئے ہیں جن میں سے 'فورتھ جنریشن وار فیئر' میں دہشت گردی کے ذریعے ملکوں کو مسخر کرنے کو کہا جاتا ہے۔ جب کہ اب پاکستان میں 'ففتھ جنریشن وار فیئر' نظریات کی جنگ کے لیے اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں عسکری حلقے اس وار فیئر کو خود سے منسوب کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ فوج کو بدنام کرنے کی کوشش بھی اسی وار فیئر کا حصہ ہے۔
متاثرہ صحافی کیا کہتے ہیں؟
اس طرح کے کیسز میں شفافیت کس قدر ہے اور کیا واقعی یہ آزادیٔ اظہارِ رائے کا معاملہ ہے۔ اس بارے میں سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کہتے ہیں کہ ہم نے ماضی میں بھی ایسی پابندیاں اور مقدمات دیکھے ہیں۔ مجھے تو یہ تک نہیں معلوم کہ میرے خلاف غداری کی ایف آئی آر کس ٹویٹ کی بنیاد پر درج کی گئی ہے۔
ابصار عالم کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں آزادیٔ اظہارِ رائے پر دباؤ ہے اور ہر طرح سے مخالف آوازوں کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کے بقول جتنی بھی تنقیدی آوازیں ہیں انہیں دبایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آرز درج کرائی جا رہی ہیں لیکن ہم اپنا قانونی حق استعمال کریں گے۔ آئین کا آرٹیکل 19 ہمیں اپنی بات کہنے اور آزادیٔ اظہارِ رائے دیتا ہے جس پر کوئی قدغن برداشت نہیں کی جائے گی۔
دوسری جانب امجد شعیب کا دعویٰ کیا ہے کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے جسے بدنام کرنے کے لیے دشمن ملک کی ایجنسیاں اندر کے لوگوں کو استعمال کر رہی ہیں۔
انہوں نے ان دشمن ممالک کے نام نہیں بتائے جو پاکستان میں لوگوں کو استعمال کر رہی ہیں۔ اور نہ ہی انہوں نے ان لوگوں کی نشان دہی کی جن پر ثابت ہوا ہے کہ وہ کسی دشمن ملک کی ایجنسی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
امجد شعیب کے مطابق وہ صحافیوں کی آزادیٔ اظہار کے خلاف نہیں لیکن اگر کسی کے ایجنڈے پر چل کر کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے ملک کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ تو صرف صحافی ہونے کی بنا پر استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ کئی بار دیکھنے میں آیا کہ ایک خبر کے ذریعے کسی شخص کو بدنام کر دیا گیا۔ لیکن بعد میں وہ خبر غلط ثابت ہوئی۔ تو ایسے صحافی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ لہذا اگر مقدمات درج ہو رہے ہیں تو یہ ایک قانونی طریقہ ہے۔
انسانی حقوق کے نمائندوں کا کیا مؤقف ہے؟
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے حالیہ دنوں میں صحافیوں کے خلاف درج کیے جانے والے مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایچ آر سی پی کے ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کم ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی بڑھ رہی ہے اور ہمارے اندازہ کے مطابق اس کو حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے۔
اُن کے بقول 'ایچ آر سی پی' نے انسانی حقوق کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی بنائی ہے جس کے مطابق پاکستان میں اظہار رائے پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور لوگوں کو ان کی بات کہنے کے حق سے روکا جا رہا ہے۔
جنرل عاصم سلیم باجوہ کے حوالے سے صحافی احمد نورانی کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد پاکستان کی فوج پر سوشل میڈیا پر الزامات میں تیزی آئی ہے اور اب بھی کئی اکاؤنٹس کے ذریعے تنقید کی جا رہی ہے۔ جب کہ اس کے مخالف فوج کی حمایت میں بھی کئی اکاؤنٹس کام کرتے نظر آرہے ہیں۔