وزیرِ اعظم عمران خان سے گزشتہ دنوں ادیبوں کی وڈیو لنک کے ذریعے ہونے والی ملاقات میں کئی نامور ڈرامہ نگاروں اور ادیبوں نے شرکت کی۔
وزیرِ اعظم سے ہونے والی اس ملاقات کے شرکا کا کہنا تھا کہ ملاقات کے دوران دو موضوعات خاص طور پر زیادہ زیرِ بحث رہے۔ جن میں ڈراموں کے ذریعے ملک میں مبینہ طور پر بڑھتی شرحِ طلاق اور نوجوانوں کے لیے تاریخی موضوعات پر ڈرامے لکھنے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔
اس ملاقات میں شرکت کرنے والے ادیبوں کے بقول اس وقت لوگوں کی زندگیاں بچانے کی ضرورت ہے۔ جس میں حکومت کامیاب نظر نہیں آ رہی۔
دعوت نامہ موصول ہونے کے باوجود وڈیو لنک کے ذریعے اس میٹنگ میں شرکت نہ کرنے والی نور الہدیٰ شاہ کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتی کہ یہ لکھاریوں اور ڈرامہ نویسوں کو اکٹھا کرنے کا وقت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نور الہدیٰ شاہ کا کہنا تھا کہ ملک کو ایک جان لیوا وبا کرونا وائرس نے جکڑ رکھا ہے۔ ایسے میں کونسے ڈرامے لکھے جائیں اور ان کا معاشرے پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔
نور الہدیٰ شاہ کی اس بات سے مصنف اور ڈرامہ نگار آمنہ مفتی بھی متفق ہیں۔
وزیرِ اعظم سے وڈیو لنک کے ذریعے ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتاتے ہوئے آمنہ مفتی کا کہنا تھا کہ جہاں وہ ایسی ملاقاتوں کی حامی ہیں جن میں ادیبوں کے ساتھ معاشرے کی ذہنی تربیت کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جائے۔ وہیں موجودہ حالات کے تناظر میں وہ وقت کے چناؤ پر ضرور حیران ہیں۔
آمنہ مفتی کا کہنا تھا کہ اگر سرکاری ٹی وی بہتر معیار کے ڈرامے دوبارہ پیش کرتا ہے تو یہ ایک مثبت قدم ہو گا۔
آمنہ مفتی نے کہا کہ وہ اس بات سے قطعی متفق نہیں کہ معاشرے میں کسی بھی بڑھتے رجحان کا ذمہ دار صرف ڈرامے لکھنے والوں کو ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
وڈیو لنک ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک تو طلاق کا فیصلہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں جو غیر شرعی یا غیر قانونی ہو جب کہ نہ ہی کوئی بھی شخص صرف ڈرامہ دیکھ کر ایسا کوئی قدم اٹھاتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اسے یوں لکھاریوں کے سر ڈال دینا مناسب نہیں۔
وڈیو لنک کے ذریعے ہونے والی ملاقات کے دوران نوجواںوں کے لیے اسلامی تاریخ سے ہیروز ڈھونڈ کر ڈراموں کا موضوع بنانے کی بات ہوئی تو اس پر بھی شرکا کا نقطہ نظر وزیرِ اعظم سے قدرے مختلف تھا۔
ڈرامہ ‘قدوسی صاحب کی بیوہ’ کے لکھاری فصیح باری خان کا کہنا ہے کہ اول تو آج کا نوجوان پاکستانی ڈرامہ دیکھتا ہی نہیں۔ زیادہ تر افراد جن کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ وہ 'آن ڈیمانڈ ٹی وی' جیسے کہ نیٹ فلکس اور ایمازون کو ہی اپنے فارغ اوقات میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ویسے بھی مصنف صرف شہزادے شہزادیوں کی کہانیاں نہیں لکھنا چاہتے۔
فصیح کے بقول بے کار کی مار پیٹ اور تشدد پر مبنی سین دکھانا واقعی ختم ہو جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے کہ اب شاید سب ڈرامے ایک سے بنائے جائیں گے۔
وزیرِ اعظم سے لکھاریوں کی ہونے والی ملاقات کے بارے میں ںور الہدیٰ شاہ کا کہنا تھا کہ ان تک اس ملاقات کی تفصیلات پہنچی ہیں جب کہ وہ دو تین چیزوں کے بارے میں بالکل واضح رائے رکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی ہیروز کا بار بار ذکر ‘ارتغرل’ ڈرامے کو نشر کیے جانے کے بعد سے وزیرِ اعظم کئی فورمز پر کر چکے ہیں۔ لیکن تاریخ کی معتبر کتب میں ارتغرل کا ذکر دو سطور سے زیادہ نہیں جب کہ بطور اسلامی جنگجو تو بالکل ہی ذکر نہیں ہے۔ لہذا یہ مثال ہی غلط ہے۔
اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسی ملاقاتیں جنرل ضیا الحق کے دور میں ہوا کرتی تھیں۔ جہاں مصنفین کو باور کرایا جاتا تھا کہ آپ کو معاشرے میں کونسے اسلامی شِعار متعارف کرانے ہیں۔ اس ذہنی انجینئرنگ کا نتیجہ کس صورت میں نکلا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔
ان کے بقول سرکاری سطح پر پڑھائی جانے والی پاکستان اسٹڈیز میں تو تاریخ کے کئی درانداوزوں کو بھی ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
نور الہدیٰ شاہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اپنی مٹی سے جڑے کئی کردار ایسے ہیں جو ہیروز سے کم نہیں لیکن ان پر کوئی بات نہیں کرے گا۔
فصیح باری کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون ہمارا ہیرو ہے اور کون نہیں؟
ان کے بقول ڈراموں کو علاقائی زبانوں میں بھی دکھایا جانا چاہے۔
وہ اس بات پر کچھ تشویش کا شکار تھے کہ اتنی باتیں ہوئیں، ڈیڑھ دو گھنٹے چلنے والی ملاقات میں کہیں انہیں اپنے سوالات کا جواب نہیں دیا گیا۔
شرکا کے مطابق ملاقات میں وزیرِ اعظم نے مغربی معاشرے میں گزارے وقت اور اپنے مشاہدوں کا ذکر بھی کیا جب کہ مصنفین کو بتایا کہ کیسے ڈراموں کے ذریعے پاکستانیوں کو ان منفی معاشرتی اقدار سے دور رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
امجد اسلام امجد، حسینہ معین، ظفر معراج اور صائمہ اکرم سمیت 10 سے 12 لکھاری اس ملاقات میں شریک تھے۔
افتخار عارف، فاروق قیصر اور ساجی گل مدعو ضرور تھے لیکن بظاہر کسی تکینکی خرابی کی بنا پر وزیرِ اعظم کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں شرکت نہ کر سکے۔
وزیرِ اعظم سے ملاقات میں شریک بیشتر لکھاری اس بات پر مکمل اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ ایک جیسے ڈرامے بنانا کسی طور پر مثبت قدم نہیں ہے۔
ان کے بقول موضوعات میں یکسانیت اہم پیغام کا اثر زائل کر دیتی ہے جب کہ لکھنے والے کی آزادی رائے کے اظہار پر پابندی جیسے سوال بھی اٹھ سکتے ہیں۔