پاکستان کی مقبول اداکارہ ثانیہ سعید نے کہا ہے کہ پاکستانی ڈراموں میں ماضی کے برعکس خود مختار، کامیاب نوکری پیشہ خاتون کے کردار کا تصور کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
انھوں نے یہ بات وائس آف امریکہ اردو کے ساتھ انسٹاگرام پر لائیو گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
ثانیہ سعید گزشتہ تیس سال سے شوبزنس سے وابستہ ہیں اور انھیں بہترین اداکارہ کے لیے پی ٹی وی، ہم اور لکس اسٹائل ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے۔ انہیں حسینہ معین کے آہٹ اور انور مقصود کے ستارہ اور مہرالنسا جیسے ڈراموں سے شہرت ملی اور سرمد کھوسٹ کی فلم منٹو میں بھی ان کے کام کو سراہا گیا۔
ثانیہ سعید نے بتایا کہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کیے جانے والے لاک ڈاؤن سے وہ ذہنی اذیت کا شکار نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا، میں تو گھر میں سکون سے ہوں۔ مجھے کام سے وقفہ بھی چاہیے تھا۔ لیکن ان غریبوں کا سوچ کر دکھ ہوتا ہے جو گھر میں بند ہونے کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ میرے خیال میں ہمارے بیشتر ڈراموں میں خاتون کو روتا دھوتا اور کمزور دکھانا پسند کیا جاتا ہے جو جو اپنے حق کے لیے کھڑی نہیں ہوتی۔ یعنی معاشرے میں اسی قسم کی عورتوں کو ہونا چاہیے۔ انھیں کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ ڈراموں میں اپنا کاروبار چلانے والی، ملازمت کرنے والی یا ایسی خواتین کی جگہ نہیں ہے جو مردوں پر انحصار نہ کریں۔ یہ سوچ معاشرے کے اس طبقے کی عکاسی کرتی ہے جو عورت کو برابری کا درجہ نہیں دیتا اور نہ ہی دینا چاہتا ہے۔
ثانیہ کہتی ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ اچھے ڈرامے بالکل ہی نہیں بن رہے۔ کچھ اچھا کام ہور ہا ہے۔ لیکن مسئلہ توازن کا ہے۔ دو اچھے ڈرامے اور دوسری طرف عورت کے مخصوص کردار پر مبنی چھ ڈرامے۔ لکھنے والوں کو چاہے کہ وہ اپنا ذہن کھولیں اور خود مختار خواتین کی بھی منظر کشی کریں۔ تاریخ سے کامیاب خواتین کی کہانیاں مٹائے جانے کی وجہ سے بھی بعض لوگ دنیا بھر میں عورتوں کو کمتر سمجھتے ہیں۔
عورت مارچ پر تنقید کے بارے میں ثاںیہ سعید نے کہا کہ دونوں طرف سے کسی حد تک بدتمیزی ہوئی۔ آپ مختلف نظریات رکھ سکتے ہیں اور اپنی بات آواز اونچی کیے بغیر، ذاتیات پر اترے یا گالی گلوچ کے بغیر کرسکتے ہیں۔ اچھی بات ہے کہ خواتین کے حقوق پر بات تو ہورہی ہے۔ اس بحث کا فائدہ گتب ہوگا جب ہم ایک دوسرے کو سننے کی صلاحیت پیدا کریں گے۔
دنیا بھر میں فلم انڈسٹری میں مرد کو بوڑھے ہونے کے بعد بھی ہیرو کا کردار مل جاتا ہے لیکن خواتین کی عمر زیادہ ہونے پر ماں کے کردار ملتے ہیں۔ اس تفریق کے سوال پر ثانیہ نے کہا کہ کہ میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا کیونکہ میں شروع ہی سے ہر قسم کے کردار کررہی ہوں۔ لیکن یہ سوچ کہ مرد کے مقابلے میں عورت جلدی بوڑھی ہوجاتی ہے، پریشان کن ہے۔