پاکستانی اداکار اور پروڈیوسر اعجاز اسلم کا کہنا ہے کہ وہ پائلٹ بننا چاہتے تھے۔ لیکن قسمت نے اداکار بنادیا حالانکہ ان کی والدہ بھی اداکاری کرنے کے خلاف تھیں اور پڑھائی پر توجہ دینے پر زور دیتی تھیں۔ لیکن ایک مرتبہ انہوں نے اداکاری کیا کی، پھر اس فیلڈ سے نکلنے کا دل ہی نہیں چاہا۔
وائس آف امریکہ کے 'انسٹاگرام لائیو' میں گفتگو کے دوران پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ والدہ اداکاری کے خلاف کیوں تھیں؟ اعجاز اسلم نے بتایا کہ والدہ چاہتی تھیں کہ وہ اپنا کاروبار کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اداکاری میں ملتا ہی کیا ہے۔
واقعی اس دور میں اداکاری میں اتنے پیسے نہیں ملتے تھے۔ مگر اب صورتحال مختلف ہے۔
اعجاز اسلم کا کہنا تھا کہ اپنے کیرئر کا آغاز انہوں نے ماڈلنگ سے کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی انہیں ڈرامہ سیریل 'عروسہ' میں کام کی پیشکش ہوئی۔ مگر ان کی والدہ نہیں مانیں لہذا انہوں نے انکار کردیا۔ اس وقت ان کی عمر محض 20 سال تھی۔
اعجاز اسلم نے بتایا کہ سن 1993 کی بات ہے کہ انہیں ڈرامہ 'کشکول' میں اداکاری کی آفر ہوئی۔ جسے انہوں نے قبول کرلیا اور جیسے تیسے کرکے والدہ کو بھی منالیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'کشکول' ڈرامہ ہٹ ہوا جب کہ اداکاری کے لیے مجھے خوب سراہا گیا۔ اس کے بعد تو ایک کے بعد ایک ڈرامے کی آفرز آتی چلی گئیں اور میں مصروف ہوتا چلا گیا۔
اعجاز اسلم کا کہنا تھا کہ انہوں نے سنجیدہ ڈراموں کے ساتھ ساتھ سِٹ کامز میں بھی کام کیا اور اپنی اداکاری سے لوگوں کو ہنسایا۔
سوشل میڈیا پر اداکارہ عظمٰی خان اور ملک ریاض کی بیٹیوں کی ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں اعجاز اسلم نے کہا کہ بہت سے لوگ بہت دنوں سے اس ویڈیو پر بات کر رہے ہیں لیکن میرے خیال میں اس مسئلے سے زیادہ کراچی میں پیش آنے والے طیارہ حادثے اور مرنے والوں کے لواحقین سے ہمدردی اور ان کا خیال رکھنا زیادہ اہم ہے مگر شاید ہم اس ویڈیو کے سبب طیارے کے حادثے کو بھول گئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ویڈیو سے متعلق انہیں خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ کیوں کہ انہیں تمام حقائق معلوم نہیں ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر خواتین کو تنقید کا نشانہ بنانا زیادہ آسان ہے۔ مردوں کے اس معاشرے میں خواتین کے کپڑوں سے لے کر کردار تک ہر موضوع پر تنقید کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ سراسر غلط ہے۔
اعجاز اسلم نے ہنستے ہوئے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ انہیں کھانا پکانے کا بہت شوق ہے اور چونکہ شہر میں لاک ڈاؤن نافذ ہے اور سب لوگ گھروں تک محدود ہیں اس لیے ان کا زیادہ تر وقت گھر والوں کے لیے اچھے اچھے کھانے بنانے میں گزرتا ہے۔
اعجاز اسلم رواں ہفتے سے کرونا وائرس کے سبب تاخیر کا شکار ہونے والے پروجیکٹس پر دوبارہ کام شروع کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کریں گے۔
اعجاز نے اپنی خواتین مداحوں کے حوالے سے بتایا کہ ماضی میں وہ فیشن ڈیزائنر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت انہیں لڑکیاں اپنے خون سے خط لکھ لکھ کر ان کے بوتیک پر چھوڑ جایا کرتی تھیں۔ ان میں سے کچھ خطوط میں تو جواب نہ دینے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی تھیں۔
اعجاز اسلم نے گفتگو کے دوران یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ بعض لڑکیاں اس پارک میں بھی جاپہنچتی تھیں جہاں ان کی والدہ چہل قدمی کے لیے جایا کرتی تھیں۔ یہ لڑکیاں کسی نہ کسی بہانے سے ان کی والدہ سے دوستی کرلیا کرتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے دور میں اب ایسا نہیں ہوتا۔ اداکار تک رسائی اتنی آسان ہو گئی ہے کہ جیسے وہ آپ ہی کے گھر کا فرد ہو۔