رسائی کے لنکس

حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی سخت شرائط کیسے پوری کرے گی؟


  • گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف نے پاکستان کو سات ارب ڈالر قرض پروگرام دینے کی منظوری دی ہے۔
  • قرض کی رقم آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کی مںظوری اور پاکستان کی جانب سے کرائی گئی یقین دہانیوں پر عمل درآمد سے مشروط ہے
  • پاکستان کو مالیاتی یقین دہانیاں پوری کرنے کے لیے چین سے قرضوں میں رعایت حاصل کرنا ہو گی
  • ماہرین کے مطابق توانائی کے شعبے میں اصلاحات سے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ ہو گا
  • آئی ایم ایف نے پہلی مرتبہ حکومت کو زراعت اور برآمد کنندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر قائل کیا ہے

کراچی __بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر قرض پروگرام کی منظوری کو جہاں حکومت ایک بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے وہیں بعض معاشی ماہرین کے نزدیک سیاسی اور معاشی حالات کے باعث پروگرام کی شرائط پر عمل بھی ایک چیلنج ہو گا۔

گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف نے پاکستان کو سات ارب ڈالر قرض پروگرام دینے کی منظوری دی ہے۔ 37 ماہ کے پروگرام کے تحت یہ رقم قسط وار پاکستان کو دی جائے گی۔

حکومتی عہدے دار اور بعض ماہرین اس معاہدے پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ رقم ملنے سے پاکستان کو مستقبل میں بیرونی قرضوں اور دیگر ادائیگیوں میں آسانی ہو گی۔

لیکن بعض معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پروگرام کی سخت شرائط سے مہنگائی بڑھے گی جو ملک میں سماجی بے چینی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔

اس کے علاوہ حکومت کے کمزور سیاسی مینڈیٹ کے باعث معیشت کے اصلاحاتی پروگرام کی تکمیل پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

قرض کن شرائط پر دیا جائے گا؟

آئی ایم ایف کے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ معاہدہ اس کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔ ساتھ ہی پاکستان کو وعدے پورے کرنے ہوں گے اور مالیاتی یقین دہانیاں بھی پوری کرنا ہوں گی۔

ماہر معیشت اور نجی یونیورسٹی کے ایک استاد احمد فاروق کا کہنا ہے کہ فنڈ کے مطابق مالیاتی یقین دہانیوں سے مراد چین کے پاکستان کو دیے گئے قرضوں میں رعایت حاصل کرنا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان پر سب سے زیادہ قرض چین کا ہے جو مجموعی قرض کا تقریباً 30 فی صد بنتا ہے۔ ظاہر ہے کہ چین کو توانائی سمیت دیگر شعبوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری پر قرض کی رقوم اب واپس بھی کرنی ہیں۔

اس بارے میں یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ پاکستان کے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب اگلے ہفتے چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔

احمد فاروق کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ اس دورے میں توانائی سمیت دیگر شعبوں میں پاکستان کے حاصل کردہ قرضوں کی ری شیڈولنگ اور ری اسٹرکچرنگ پر بات کی جائے گی۔

تاہم سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک مرتضیٰ سید اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

ان کے مطابق یہ مسئلہ نہیں ہے کہ پاکستان چینی قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ پاکستان پر ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور پیرس کلب وغیرہ کے قرض چین سے زیادہ ہیں۔

حکومت کا ٹیکس وصولیاں بڑھانے کا وعدہ

فنڈ کے مطابق اس پروگرام کے تحت پاکستانی حکام ملک میں ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے کے لیے اصلاحات متعارف کرائیں گے۔

اس پروگرام کے تحت حکومت ملک میں رواں سال ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب ڈیڑھ فی صد بڑھائے گی جب کہ پروگرام کے اختتام تک اسے تین فی صد تک لانا ہو گا۔

خیال رہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے مطابق اس وقت ملک کی مجموعی قومی آمدن یعنی جی ڈی پی کے تناسب سے جمع ہونے والا ٹیکس صرف نو فی صد ہے جو خطے کے کئی ممالک سے کم ہے۔

اس سال حکومت نے 12 ہزار 970 ارب روپے ٹیکس کلیکشن کا ٹارگٹ رکھا ہے جو کہ گزشتہ سال سے تقریبا 40 فی صد زیادہ ہے۔

دوسری جانب ایف بی آر ٹیکس وصولیوں میں گزشتہ سال 30 فی صد اضافے کے باوجود مالی سال کے ٹیکس ٹارگٹ پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔

ماہر معیشت اور محقق طاہر عباس کا کہنا ہے کہ حکومت نے فنڈ سے وعدہ کیا ہے ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لیے کولیکشن کو آسان بنایا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ ہی منصفانہ، براہ راست اور بالواسطہ دونوں طرح کے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ جب کہ ریٹیل، برآمدات اور زراعت سمیت ایسے شعبے جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ان سے بھی زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جائے گا۔

برآمدات اور زراعت پر ٹیکس کا وعدہ

اس ڈیل کی اہم بات یہ قرار دی جا رہی ہے کہ فنڈ نے حکومت پاکستان کو پہلی بار قائل کیا ہے کہ وہ ایکسپورٹرز یعنی برآمد کنندگان اور زرعی شعبے کو بھی ٹیکس نیٹ میں لائے گی۔

اگرچہ حکومت نے حالیہ ٹیکس میں ایکسپورٹرز کو بھی نارمل ٹیکس رجیم میں لانے کا اعلان کر دیا ہے لیکن اب زرعی آمدن کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایاجا رہا ہے۔

فنڈ کے اعلامیے کے مطابق صوبے ٹیکس جمع کرنے کی اپنی کوششوں کو مزید بڑھانے کے لیے اقدامات کریں گے اور اس میں سروسز پر سیلز ٹیکس کے علاوہ زرعی انکم ٹیکس بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔

تمام صوبے وفاق کے ذاتی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس رجیم کو اپنے زرعی انکم ٹیکس کے نظام کے ساتھ ہم آہنگ کریں گے اور پھر یہ یکم جنوری 2025 سے نافذ ہو جائے گا۔

معروف ٹیکس ماہر اکرام الحق ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مجموعی قومی آمدن میں زراعت کا حصہ 24 فی صد کے لگ بھگ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس اعتبار سے گزشتہ سال جمع کیے گئے نو ہزار 252 ارب روپے کے ٹیکسز میں زراعت سے حاصل ہونے والے ٹیکس کا حصہ لگ بھگ ساڑھے 18 سو ارب روپے تک ہونا چاہیے تھا لیکن یہ بمشکل 10 ارب بھی نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے میں ٹیکس اکٹھا کرنے کی کافی استعداد ہے لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیاسی وجوہ کی بنیاد پر یہاں سے ٹیکس جمع کرنے سے گھبراتی ہیں۔

اکرام الحق کے مطابق تاہم اب امید ہے کہ اس سیکٹر کو بھی دیگر شعبوں کی طرح ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا جس سے محصولات بڑھانے، قرضوں پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی۔

اسی طرح پروگرام میں ایک شرط یہ بھی رکھی گئی ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے ساتھ معاشی جھٹکوں سے بچنے کے لیے لچک دار ایکسچینج ریٹ ممکن بنائے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ فارن ایکسچینج مارکیٹ میں کاروبار شفاف بنانے کے لیے بھی اقدامات جاری رکھے جائیں گے۔

توانائی کے شعبے میں اصلاحات

آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ملک میں توانائی کے شعبے کی رٹ کو بحال کرنے، نرخوں کی بروقت ایڈجسٹمنٹ اور لاگت میں کمی کے لیے فیصلہ کن اصلاحات لانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔

اسی طرح بجلی کی پیداواری صلاحیت میں مزید غیر ضروری توسیع سے گریز کے ذریعے مالیاتی خطرات کو کم کرنا بھی شرائط میں شامل ہے۔

حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ بجلی کے شعبے میں سب ہی صارفین کو سبسڈی دینے کے بجائے صرف ضرورت مند کم آمدنی رکھنے والے گھرانوں کو ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے گی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس ڈیل کی صورت میں بجلی کے نرخ بڑھیں گے، تاہم ایسی صورت میں حکومت صارفین کو کوئی ریلیف دینے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتی۔

اس شعبے میں نقصانات کو پورا کرنے کے لیے مشکل اور دیرپا اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن فی الحال حکومت اس کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔

ماہرین کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کو اس کے لیے بجلی کی جنریشن اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو جلد نجی شعبے کے حوالے کرنا ہو گا اور اس شعبے میں ہونے والے نقصانات کو کم کرنا ہو گا۔

توانائی امور کے ماہر فرحان علی خان کا کہنا ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں اور اسی لیے انہیں خدشہ ہے کہ حکومت توانائی کے شعبے میں مسلسل نقصانات کو پورا کرنے کے لیے بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر مجبور ہو گی۔

امدادی قیمتوں کا خاتمہ اور نجکاری کا عمل تیز

حکومت نے آئی ایم ایف سے اس بات کا بھی وعدہ کیا ہے کہ ملک میں کاروباری ماحول کو بہتر بنانے، تمام کاروباروں کے لیے برابری کا میدان مہیا کرنے کے لیے ریاستی پالیسیوں میں بگاڑ کو دور کیا جائے گا۔

اس سلسے میں سرکاری کاروباری اداروں کے آپریشنز اور مینجمنٹ کو بہتر بنانے کے ساتھ نجکاری کا عمل بھی تیز کیا جائے گا اور اس میں ان اداروں کو فوقیت دی جائے گی جو بہتر منافع کما رہے ہیں۔

حکومت نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ اسپیشل اکنامک زونز کو دی گئی مراعات بتدریج ختم کی جائیں گی۔

اسی طرح زرعی سپورٹ پرائس (امدادی قیمتیں) اور دیگر سبسڈیز بھی مرحلہ وار ختم کی جائیں گی اور کسی بھی شعبے میں گارنٹیڈ منافع دینے سے اجتناب کیا جائے گا۔

حکومت نے بدعنوانی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ گورننس اور شفافیت پیدا کرنے والی اصلاحات کو آگے بڑھانے اور تجارتی پالیسی کو بتدریج آزاد کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔

سیاسی صورتِ حال اور وعدوں پورے کرنے میں مشکلات

ادھر ریٹنگ ایجنسی موڈیز کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات کے نتیجے میں نئے ٹیکسز عائد ہوں گے۔

ریٹنگ ایجنسی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل سے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں جس سے سماجی سطح پر تناؤ کی صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے۔

موڈیز کاکہنا ہے کہ پاکستان کی مخلوط حکومت کے پاس مضبوط مینڈیٹ نہ ہونے کے باعث کئی مشکل اصلاحات کے نفاذ میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔

ریٹنگ ایجنسی کے تجزیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی بیرونی مالی پوزیشن اب بھی نازک ہے، اور اگلے تین سے پانچ سال تک بھاری بیرونی ادائیگیوں کو دیکھا جائے تو یہ صورت حال برقرار رہنے کا امکان ہے۔

پالیسیوں پر عمل درآمد میں کمزوریوں کے باعث ناقص گورننس اور سماجی تناؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے لیے اصلاحات کرنا مشکل ہو گا۔

موڈیز کے بقول ایسے حالات میں حکومت کے لیے فنڈ کے سہ ماہی ریویوز پورا کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے جس سے پروگرام کی تکمیل سمیت مکمل فنڈنگ کا حصول بھی خطرات میں پڑ سکتا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG