• سرچ انجن پر گوگل کی اجارہ داری کا کیس ، حکومت کی عدالت کو جمع کروائی گئی دستاویز میں کمپنی کو تقسیم کرنے کی بھی تجویز شامل • اگست میں ڈسٹرکٹ جج امن مہتا نے گوگل کی سرچ انجن پر اجارہ داری کے کیس کا فیصلہ سنایا تھا اور مسئلے کے حل کی تجاویز مانگی تھیں • گوگل دیگر ٹیک کمپنیوں کو اپنا سرچ انجن ڈیفالٹ بنائے رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے اربوں ڈالر دیتی ہے۔ • گوگل نے امت مہتا کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ |
امریکی محکمہ انصاف ایک وفاقی جج سے یہ استدعا کرنے پر غور کر رہا ہے کہ گوگل کے انٹرنیٹ سرچ انجن کو غیر قانونی اجارہ داری قرار دینے کے بعد کمپنی کو تقسیم کر دیا جائے، عدالت میں داخل کی گئی دستاویز میں یہ اس مسئلے کے حل کے لیے دی گئی تجاویز میں سے ایک ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق منگل کی رات عدالت میں جمع کیے گئے کاغذات میں سرکاری وکلا نے ان ممکنہ اقدامات کا ذکر کیا ہے جن پر حکومت عمل کر سکتی ہے۔ ان میں گوگل کی اے آئی کے نتائج ظاہر کرنے کے لیے دوسری ویب سائٹس سے معلومات لینے کے طریقہ کار پر پابندیاں عائد کرنا اور گوگل پر ایپل اور دوسری کمپنیوں کو اربوں ڈالر دینے پر پابندی عائد کرنا بھی شامل ہے۔
گوگل ان کمپنیوں کو یہ رقوم اس لیے ادا کرتی ہے کہ وہ اپنے آئی فون جیسے ڈیوائسز پر گوگل سرچ انجن کو ڈی فالٹ سرچ انجن کا درجہ دیے رکھیں۔
منگل کے روز جمع کروائی گئی دستاویز کئی عشروں سے سرچ انجن کے مترادف سمجھی جانے والی کمپنی کی ہئیت تبدیل کرنے کے لیے تجاویز دینے کا پہلا مرحلہ ہے
ان دستاویز میں لکھا گیا کہ عشروں سے گوگل نے انٹرنیٹ پر معلومات کی ترسیل کے مقبول چینلز پر مکمل اجارہ داری قائم کر رکھی تھی جس کی وجہ سے اس کے حریفوں کو صارفین کے فائدے کے لیے گوگل سے مسابقت کرنے میں کوئی دلچسپی موجود نہیں تھی۔ کورٹ فائلنگ میں کہا گیا کہ ان حالات کو تبدیل کرنے کے لیے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ گوگل کا اس ترسیل سے کنٹرول ختم کیا جائے، بلکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ گوگل مستقبل میں بھی ایسی اجارہ داری قائم نہ کر سکے۔
رواں برس اگست میں امریکی ڈسٹرکٹ جج امت مہتا نے فیصلہ جاری کیا تھا کہ گوگل کا سرچ انجن، اس میدان میں اپنے غلبے کا غیر قانونی فائدہ اٹھاتا رہا ہے اور اس نے مسابقت کو توڑا ہے اور کسی بھی قسم کی نئی ایجاد کو روکا ہے۔ انہوں نے اس صورت حال کے حل کے لیے ایک ٹائم لائین دی تھی تاکہ اگلے برس بہار تک اس بارے میں تجاویز دی جا سکیں، اور وہ اگست 2025 تک اس مقدمے کا فیصلہ سنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
امریکی محکمہ انصاف اس سلسلے میں اپنا تفصیلی پروپوزل اگلے مہینے تک فراہم کرے گا۔
گوگل کی ریگولیٹری امور کی نائب صدر لی این مُل ہولینڈ نے محکمہ انصاف کی عدالتی فائلنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے دی گئی درخواستیں اس کیس میں اٹھائے گئے قانونی معاملات سے باہر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے سے اس تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صنعت میں امریکہ کی جدت پیدا کرنے کی صلاحیت اور امریکی صارفین پر اثرات ہوں گے۔
گوگل کا کہنا ہے کہ وہ امت مہتا کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے گی۔ لیکن اس کے لیے کمپنی کو ان تجاویز پر اتفاق کا انتظار کرنا پڑے گا۔ کارنیل یونی ورسٹی کے قانون کے پروفیسر جارج ہے کا کہنا ہے کہ کمپنی کے اپیل میں جانے کے بعد اس قانونی جنگ کو مکمل ہونے میں مزید پانچ سال لگ سکتے ہیں۔ جارج ہے 1970 کی دہائی میں امریکی محکمہ انصاف کے اینٹی ٹرسٹ ڈویژن کے چیف اکانمسٹ رہے ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں طویل عدالتی ٹرائل کے دوران اکثر ثبوت اس طرف توجہ مرکوز کئے رکھے رہے کہ گوگل نے دوسری ٹیکنالوجی کی کمپنیز کے ساتھ معاہدے کیے تھے کہ وہ اپنے صارفین کے لیے گوگل کو بنیادی یا ڈیفالٹ سرچ انجن کے طور پر قائم رکھنا یقینی بنائیں۔ ٹرائل میں دی گئی شہادتوں کے مطابق صرف 2021 میں گوگل نے ان معاہدوں کو قائم رکھنے کے لیے 26 ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا۔
فورم