|
اسلام آباد -- "فور جی سروسز تو دور کی بات اکثر تھری جی بھی کام نہیں کرتا جس کی وجہ سے گوگل میپس کے ذریعے منزل پر پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اکثر کلائنٹس تاخیر کی وجہ سے کھانا وصول کرنے اور ادائیگی کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔"
یہ کہنا ہے فوڈ ڈیلیوری بوائے ذیشان کا جو پاکستان میں حالیہ چند روز سے انٹرنیٹ کی اسپیڈ کم ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔
ذیشان کہتے ہیں کہ کچھ دنوں سے انہیں اپنے کام میں مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ اکثر اوقات انہیں اپنی ایپ کے ذریعے ملنے والے آرڈرز بروقت نہیں مل رہے۔
صرف ذیشان ہی نہیں موٹر سائیکل اور کیب سروسز فراہم کرنے والی ایپس بھی انہی مشکلات کا شکار ہیں۔ انٹرنیٹ پر ٹریفک سلو ہونے کی وجہ سے انہیں بروقت کنیکٹوٹی نہیں ملتی جس کی وجہ سے کلائنٹ رائیڈ ڈراپ کر دیتے ہیں۔
ای کامرس سے منسلک افراد کی مشکلات
انٹرنیٹ اسپیڈ اور مختلف سوشل میڈیا سائٹس کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ای کامرس اور دیگر شعبے بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
اس صورتِ حال میں فری لانسرز کے لیے کام کرنے والی کمپنی 'فائیور' نے پاکستان میں انٹرنیٹ اسپیڈ نہ ہونے کی وجہ سے فری لانسرز کی عدم دستیابی کا بھی کہہ دیا ہے۔
اس بارے میں حکومت کی طرف سے کوئی آگاہی نہیں دی جا رہی کہ کن وجوہات کی بنا پر انٹرنیٹ کی اسپیڈ کم ہوئی ہے۔
اس سلسلے میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تاہم اس رپورٹ کے شائع ہونے تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
تاہم غیر سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ 'فائر وال' کی تنصیب کا کام جاری ہے اور انٹرنیٹ کی اسپیڈ میں کمی اسی وجہ سے آ رہی ہے۔
انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں انٹرنیشنل ٹریفک 30 سے 40 فی صد ڈاؤن گریڈ چل رہی ہے جس کی وجہ سے انٹرنیٹ پر ہونے والے تمام کاروبار شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
کئی کال سینٹرز، آن لائن کورسز، فری لانسرز اور ایسے افراد جن کا کاروبار انٹرنیٹ کے بغیر ممکن نہیں، وہ سب اس صورتِ حال سے متاثر ہو رہے ہیں۔
کیا ایسا فائر وال کی وجہ سے ہو رہا ہے؟
پاکستان میں حالیہ عرصے میں سامنے آنے والے اطلاعات کے مطابق 30 ارب روپے کی لاگت سے فائر وال نصب کی جا رہی ہے جس کے بعد سے انٹرنیٹ سروسز میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس بارے میں موبائل فون کمپنیز کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کے حوالے سے ایک عرصے سے حکومت اور ریاستی اداروں کو شکایات رہی ہیں کہ ان پر حکومت مخالف پروپیگنڈے اور الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
بعض کیسز میں اگر ایسے افراد کو گرفتار بھی کیا گیا تو قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے الزام لگنے والے شخص کو عدالتوں سے فوری ضمانتیں مل گئیں جس کی وجہ سے مبینہ طور پر حکومت نے فائر وال نظام نصب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
'انٹرنیٹ ٹریفک 30 سے 40 فی صد کم ہو چکی ہے'
انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے مختلف نجی اداروں کی ایسویسی ایشن کے چئیرمین راجہ شہزاد ارشد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ کی اسپیڈ کم ہونے کی وجہ سے اس وقت کاروبار متاثر ہو رہے ہیں اور بہت سی کمپنیز اپنے آپریشن کو بیرون ملک منتقل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں انٹرنیٹ ٹریفک میں 30 سے 40 فی صد کمی دیکھنے میں آئی ہے جس کی وجہ سے ای کامرس سے منسلک ادارے مشکلات کا شکار ہیں۔
راجہ شہزاد ارشد کہتے ہیں کہ ہم سروس فراہم کرنے والے ہیں اور ہم سے منسلک کاروباری افراد اپنی شکایات کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے کیوں کہ ہم نے اس بارے میں پی ٹی اے سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن پی ٹی اے کا بھی کہنا ہے کہ ان کی طرف سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
راجہ شہزاد کا کہنا تھا کہ اگر فائر وال کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے تو اس بارے میں بھی آگاہ کرنا چاہیے کہ یہ کب تک مکمل ہو گی کیوں کہ اسی کے مطابق کاروباری ادارے اپنے کاروبار کو شیڈول کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے کچھ لوگ وی پی این استعمال کر کے اپنا کام کر رہے تھے۔ لیکن اب بیش تر وی پی این نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اس وجہ سے ای کامرس سے منسلک افراد جو ملک میں لاکھوں ڈالر لے کر آ رہے تھے وہ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
راجہ شہزاد کا کہنا تھا کہ ہمارے کلائنٹس بہت زیادہ متاثر ہیں۔ لیکن جیسے ہم بے بس ہیں وہ بھی بے بس ہیں۔ ای کامرس کی تمام تر ٹریفک انٹرنیشنل ہوتی ہے۔
اُن کے بقول گھریلو استعمال کرنے والوں پر اتنا زیادہ اثر نہیں پڑ رہا کیوں کہ اگر واٹس ایپ پر مسئلہ ہو تو کچھ گھنٹوں کے بعد یہ دوبارہ کام کرنا شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن کارپوریٹ کلائنٹس جتنے پریشان ہیں وہ ملک ہی چھوڑ کر جانے پر غور کر رہے ہیں جس کے بعد پاکستان کو لاکھوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
آئی ٹی انڈسٹری میں کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ تیز رفتار اور محفوظ انٹرنیٹ کے بغیر وہ عالمی سطح پر مقابلہ نہیں کر سکتے۔
'پاکستان کی اربوں ڈالر کی برآمدات رسک پر ہیں'
ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم بائٹس فار آل کے ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ پاکستان سے سالانہ تین ارب ڈالر سے زائد کی آئی ٹی ایکسپورٹس ہیں جو انٹرنیٹ کی موجودہ صورتِ حال کی وجہ سے شدید متاثر ہو رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ اسپیڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ تمام لوگ جو انٹرنیٹ کے ذریعے فری لانسنگ یا دیگر کاروبار کرتے ہیں وہ متاثر ہو رہے ہیں۔ فائیور نے پاکستان میں کام دینا بند کر دیا ہے اور اس کے بعد دیگر ادارے بھی ایسا ہی کریں گے۔
ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ اگر فائر وال کی تنصیب کی جا رہی ہے تو اس میں کوئی شفافیت نظر نہیں آ رہی۔ نیشنل سیکیورٹی کا نام لے کر یہ فائر وال نصب کی جا رہی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی ڈیجیٹل پالیسی دیکھی جائے تو اس میں محفوظ اور تیز ترین انٹرنیٹ فراہم کرنے کا کہا گیا ہے۔ اگر ایسی ہی صورتِ حال رہی تو یہی کمپنیاں جو پاکستان میں کام کر کے اربوں ڈالر لا رہی ہیں، دنیا کے کسی اور ملک میں جا کر بیٹھ جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ فائر وال کی ٹیسٹنگ جلد از جلد مکمل ہو گی اور اس کے بعد انٹرنیٹ ٹریفک معمول کے مطابق ہو سکے گا۔ لیکن فی الحال صارفین کے حقوق بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جس پر حکومت کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
فورم