افغانستان میں صدراتی انتخابات کے بعد سرکردہ امیدوار کامیابیوں کے دعوے کرنے لگے ہیں جب کہ الیکشن کمشن نے کامیاب امیدوار کا اعلان اس کا استحقاق قرار دیا ہے۔
گزشتہ دورِ حکومت میں چیف ایگزیکٹیو عبد اللہ عبد اللہ نے اپنی انتخابی مہم چلانے والی ٹیم کو کامیاب قرار دیا ہے۔
ایک پریس کانفرنس میں عبداللہ عبد اللہ کا کہنا تھا کہ دو روز کے دوران نتائج کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ حکومت میری ٹیم ہی بنائے گی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ہمارے ووٹوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
دوسری جانب صدر اشرف غنی کی ٹیم میں شامل عمار صالح کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ 60 سے 70 فی صد نتائج صدر اشرف غنی کے حق میں آ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ووٹنگ کے بعد ہمیں ملک بھر سے اپنے ذرائع سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں 60 سے 70 فی صد تک ووٹ ملے ہیں۔ تاہم ہمیں انتظار کرنا ہو گا اور الیکشن کمشن کو نتائج کی تصدیق کرنا ہے۔ لیکن ہمارے لوگوں کو یقین ہے کہ ہم نے جن امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں وہ کامیاب ہوں گے۔
انہوں نے انتخابات کو امن کی جانب ایک اہم سفر قرار دیتے ہوئے کہا کہ امن کی جانب سب سے بڑا قدم انتخابات ہیں ۔ہماری تمام قربانیاں عوام کے حقوق کے حصول کے لیے ہیں۔ یہ صدیوں کی جدوجہد ہے۔ الیکشن صدر غنی یا عماراللہ کے لیے نہیں ہیں بلکہ یہ ان کا تعلق عوام سے ہے۔
خیال رہے کہ 2001 میں طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد افغانستان میں چوتھی بار صدارتی انتخابات ہفتے کے روز ہوئے ہیں۔
ان انتخابات میں 14 امیدوار میدان میں تھے تاہم ان میں موجودہ صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ اور سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
مختلف نمائندوں کی جانب سے کامیابی کے دعوؤں پر افغانستان کے الیکشن کمشن کا کہنا ہے کہ انتخابات میں کامیاب امیدوار کا اعلان کرنا صرف الیکشن کمشن کا اختیار ہے۔
الیکشن کمشن کے چیف الیکٹرول آفیسر حبیب الرحمٰن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ کسی امیدوار کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خود کو کامیاب قرار دے۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابی قوانین کے مطابق انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدوار کا اعلان الیکشن کمشن کا استحقاق ہے۔
الیکشن کمشن کے مطابق ہفتے کو ہونے والے انتخابات میں 29 صوبوں سے مکمل نتائج کابل میں کمشن کے دفتر کو موصول ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ ملک کے 34 صوبوں میں انتخابات میں 5373 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے۔ اتوار کی شب تک الیکشن کمشن کے پاس 3763 پولنگ سینٹرز سے نتائج موصول ہوئے تھے۔ ان سینٹرز میں 21لاکھ 96 ہزار سے زائد افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔
وائس آف امریکہ کو ملنے والی معلومات کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں میں خواتین کا کہنا تھا کہ الیکشن کے دوران تصدیق کے لیے تصویر لینے کی شرط کے باعث بڑی تعداد میں خواتین ووٹ ڈالنے نہیں آئیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس مرتبہ صدارتی انتخاب میں انتخابی عملے اور سیکیورٹی حکام کی کارکردگی گزشتہ انتخاب کی نسبت بہتر رہی۔ تاہم اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ نتائج کے اعلان کے بعد اختلاف کی صورت میں ملک مزید افراتفری کا شکار ہو سکتا ہے۔
ووٹنگ میں لوگوں کی دلچسپی کم ہونے کی وجوہات طالبان کی طرف سے حملوں کی دھکیاں، اُمیدواروں پر لوگوں کا عدم اطمینان اور دو مرتبہ ملتوی ہونے والے ان انتخابات کے حتمی انعقاد سے متعلق غیر یقینی صورت حال بتائی جاتی ہیں۔
خیال رہے کہ افغانستان کی آبادی تین کروڑ 50 لاکھ سے زائد ہے جب کہ ان میں 96 لاکھ سے زائد رجسٹر ووٹرز ہیں۔ افغانستان میں ووٹ دینے کے لیے 18 سال عمر ہونا ضروری ہے۔
خیال رہے کہ انتخابات میں انتہائی کم ووٹنگ ٹرن آؤٹ پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق اگر نتائج اسی طرح رہے تو مجموعی ٹرن آؤٹ 25 فی صد سے بھی کم ہو گا۔ جو 2001 میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ہونے والے چاروں صدارتی انتخابات میں کم ترین ٹرن آؤٹ ہو گا۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ صدارتی انتخابات 2014 میں ہوئے تھے۔ اس وقت ملک میں ایک کروڑ 20 لاکھ رجسٹرڈ ووٹر تھے جن میں سے 60 فی صد نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا اور 70 لاکھ سے زائد افراد کے ووٹ ڈالنے کے نتائج سامنے آئے تھے۔
ووٹوں کی گنتی کا عمل خاصا طویل ہوتا ہے کیونکہ مواصلاتی نظام کے فقدان کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں سے بیلٹ باکس مرکزی سینٹرز تک پہنچنے میں خاصا وقت لگتا ہے۔
گزشتہ روز الیکشن کمشن نے کہا تھا کہ صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کا اعلان 18 اکتوبر سے قبل کر دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ حتمی نتائج نومبر کے پہلے ہفتے میں سامنے آئیں گے۔
اس مرتبہ صدارتی انتخاب میں ووٹنگ کے لیے انگلیوں کے نشانات اور ووٹرز کی تصاویر سمیت سخت انتظامات کیے گئے تھے تاہم بعض حلقوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات پہلے ہی سے آنے شروع ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان کے سابق جنگی کمانڈر اور صدارتی اُمیدوار گلبدین حکمت یار سمیت کچھ اُمیدوار ایسی صورت حال کو ناقابل قبول قرار دے چکے ہیں۔
گلبدین حکمت یار نے کہا تھا کہ وسیع پیمانے پر دھاندلی کرنے والوں کے علاوہ کوئی بھی اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا یوں حالات کا نتیجہ شدید بحران کی صورت میں برآمد ہونے کا خدشہ ہے۔
دوسری جانب انتخابی اور سیکیورٹی حکام دونوں کا اصرار ہے کہ وہ کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔