افغانستان میں تین ہزار سے زائد مشران کا لویہ جرگہ جس میں مختلف سیاسی، عسکری اور سماجی تنظیموں کے نمائندے شامل ہیں، افغانستان میں قیام امن کے لیے راہیں تلاش کرنے میں مصروف ہے۔
اس نوعیت کا لویہ جرگہ پہلی بار ایک سابق جہادی کمانڈر کی سربراہی میں منعقد ہو رہا ہے جب کہ اس چار روزہ مشاورتی جرگے کا افتتاح ملک کے صدر نے کیا ہے۔لیکن افغان شورش کے اہم فریق طالبان نے اس جرگے کو مفاہمتی عمل کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔
جرگے کی افغان معاشرے میں کیا اہمیت ہے؟ اس کے فیصلوں کی تعمیل کس حد تک حکومت یا دیگر فریقوں کے لیے لازم ہوتی ہے؟ ماضی میں افغان لویہ جرگہ نے کیا بڑے بڑے فیصلے کیے ہیں، اس کا جائزہ لینے کے لیے وائس آف امریکہ کے اسد حسن نے افغانستان میں نوجوانوں کے امور کے وزیر سابق صحافی کمال سادت، تجزیہ کاروں میر ویس افغان اور مشتاق یوسفزئی سے گفتگو کی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق لویہ جرگہ تاریخی اعتبار سے پورے ملک کے طبقات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس بار بھی کابل حکومت کا کردار صرف سہولت کار کا ہے، جرگے کی تجاویز تاریخی اور روایتی اعتبار عمل درآمد کے لیے اہم سمجھی جاتی ہیں۔
کیا طالبان لویا جرگے کے فیصلے کو قبول کریں گے؟
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ روز افغان شہریوں کے نام اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’ لوگ جرگے کے نام پر دشمن کی سازش کا حصہ نہ بنیں ‘‘
سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ طالبان کے لیے جرگے کی جانب سے امن سفارشات کو مسترد کرنا آسان نہیں ہو گا۔ طالبان اگر آج بھی قائم ہیں اور مزاحمت کر رہے ہیں تو ان کی طاقت کا سرچشمہ افغان عوام ہی ہیں۔ ان کو حمایت مشران سے ہی حاصل ہے۔ اس لیے وہ اس جرگے کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے۔
لندن میں مقیم تجزیہ کار اور ایک خبررساں ایجنسی کے سربراہ میر ویس افغان بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔
’’ طالبان بھلے اس جرگے کے خلاف بیانات دیں لیکن اس جرگے کی سفارشات پر غور ضرور کریں گے۔ اس جرگے کی سربراہی بھی ایک سابق جہادی کمانڈر عبدالرب رسول سیاف کر رہے ہیں۔ طالبان اور داعش کے علاوہ تقریباً تمام دیگر عسکریت پسند گروپوں کو بھی نمائندگی حاصل ہے۔ لہٰذا طالبان اس کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے‘‘
جرگے کے سربراہ عبدالرب رسول سیاف کون ہیں؟
73 سالہ استاد عبدالرب رسول سیاف ایک سیاسی راہنما ہیں۔ انہوں نے 1980 کی دہائی میں شاہ ظاہرخان کی حکومت کا تختہ الٹنے والی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے خلاف مسلح مزاحمت میں حصہ لیا۔ مجاہدین کے دھڑے اسلامک یونین فار لیبریشن آف افغانستان کی قیادت کی۔ انٹرنیٹ ذرائع کے مطالق ان کا نام ایسے مجاہدین کمانڈر میں ہوتا ہے جنہوں نے عرب نوجوانوں کو جہاد کے لیے تحریک اور تربیت دی۔ اور اسامہ بن لادن کو بھی انہوں نے ہی سوڈان سے نکالے جانے کے بعد افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ عبدالرب سیاف کی جماعت اتحاد ال اسلامی سال 2005 میں اسلامی دعوة آرگنائزیشن میں تبدیل ہو گئی۔
میر ویس افغان کے بقول اس وقت بھی افغان حکومت میں کئی اہم نشتوں پر عبدالرب رسول سیاف کے لوگ براجمان ہیں بشمول وزیر دفاع اسداللہ خالد کے۔ کئی صوبوں کے گورنر بھی مسٹر سیاف کے وفادار ہیں۔ سیاف نے ابتداً اس جرگے کی سربراہی سے معذوری ظاہر کی لیکن بعد ازاں مان گئے۔
کیا کابل حکومت عملدرآمد کرے گی؟
افغان وزیر کمال سادت کہتے ہیں کہ یہ جرگہ عوام کا ہے، حکومت کا نہیں۔ ان کے بقول چھ ہزار دو سو سے زائد مشران جن میں علمائے کرام، سول سوسائٹی کے نمائندے بشمول خواتین اور نوجوانوں کے، جن کا تعلق افغانستان سے تمام نسلی و لسانی گروپوں سے ہے، 2200 مقامات پر جرگے کا حصہ ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی میڈیا اس جرگے کو کور رہا ہے۔ صدر اشرف غنی کہہ چکے ہیں کہ جرگہ جو بھی فیصلہ کرے گا حکومت کو قبول ہو گا۔ یہ جرگہ صرف اور صرف افغان امن پر توجہ مرکوز رکھے گا۔
طالبان کے علاوہ کون کون اس جرگے کے خلاف ہے؟
کمال سادت بتاتے ہیں کہ افغانستان کے آئندہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے 12 امیدواروں نے اس جرگے کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ کئی ایک سیاسی جماعتیں بھی اس کی مخالف ہیں۔ اور چونکہ الیکشن قریب ہیں تو طالبان ہر اس اقدام کی مخالفت کرتے ہیں جو حکومت نے اٹھایا ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان کے بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا وہ لویہ جرگے کی سفارشات مانیں گے یا نہیں، البتہ ان پر اخلاقی دباؤ ضرور ہو گا۔
میرویس افغان کہتے ہیں کہ جرگے کی مخالفت کرنے والے زیادہ تر صدارتی امیدوار ایسے ہیں جن کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے۔ اپوزیشن کی جماعتیں بھی مخالفت کر رہی ہیں جو ظاہر ہے حکومت کی سہولت کاری میں ہونے والے اس اقدام کی مخالفت ہی کریں گی۔
تاریخی طور پر لویہ جرگہ نے کب، کون سے اہم فیصلے کیے؟
وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے افغان وزیر کمال سادت اور تجزیہ کار میر ویس افغان نے افغانستان کے تاریخی اور ثقافتی پس منظر میں لویہ جرگوں کو بے حد اہم قرار دیا۔ ان کے بقول پورے ملک سے سیاسی اور سماجی نمائندگی رکھنے والا یہ جرگہ ملک کے اندرونی معاملات سے لے کر بیرونی امور پر فیصلوں میں بے حد اہم کردار کا حامل رہا ہے۔ اور یہ لویہ جرگہ صدیوں کی روایت کے بعد اب ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ جرگہ عام طور پر قومی نوعیت کے مسائل اور بحرانوں میں بلایا جاتا ہے۔ اور تاریخی طور پر دیکھا گیا ہے کہ اس جرگے نے ملک کے اندر آئین کی منظوری، اعلان جنگ یا کسی جنگ میں کردار، نئے بادشاہ کے انتخاب اور وسیع تر سماجی و سیاسی اصلاحات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اہم جرگے اور فیصلے:
تجزیہ کار میر ویس افغان اور دیگر ویب ذرائع درج ذیل چند اہم لویہ جرگوں کو اس طرح یاد رکھتے ہیں:
1919 تا 1929: شاہ امان اللہ نے لویہ جرگہ کی روایت ڈالی۔ جب انہوں نے 1923 میں سینٹرل پولیٹیکل اسمبلی بلائی۔ اس سے قبل ’’دربار‘‘ لگائے جاتے تھے۔ شاہ امان اللہ نے 1923، 1924 اور 1928 میں لویہ جرگہ بلایا جس میں ہر بار ایک ہزار سے زیادہ مشران نے شرکت کی۔ شاہ نے اپنے سیاسی اور سماجی اصلاحات کے ایجنڈے کے لیے حمایت حاصل کی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق آج افغانستان کا نظام انہی لویہ جرگوں کے فیصلوں کا عکاس ہے۔
1929 تا 1973: اس عرصے میں بادشاہ نادرشاہ اور ان کے جانشنین صاحبزادے محمد ظاہرشاہ نے بھی گاہے گاہے لویہ جرگوں کا انعقاد کیا۔ جن میں ہر بار ایک سے دو ہزار نمائندے شریک ہوئے۔ 1930 میں نادر شاہ نے لویہ جرگہ کے ذریعے اپنے پیش رو امان اللہ کی متعارف کرائی گئی کئی ایک اصلاحات کو منسوخ کیا۔
1941: اس سال ہونے والے جرگے میں برطانیہ کی حمایت کے حصول کے لیے جرمنی اور اٹلی کے شہریوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا
1944: دوسری جنگ عظیم میں افغانستان کے کردار پر لویہ جرگہ نے فیصلہ دیا کہ اس کا فریق نہ بنا جائے
1955: یہ جرگہ بھی خارجہ پالیسی سے متعلق تھا۔ نئے تشکیل پانے والے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعے کے حل کے لیے بلایا گیا۔
1964: اس لویہ جرگہ میں ملک کے بہترین آئینوں میں سے ایک خیال کیے جانے والے آئین کی تشکیل ہوئی۔ جس نے ملک میں سیاسی نظام کے اندر منتخب اراکین کو مضبوط بنایا۔
1976: سرداود خان کے زمانے میں بلائے گئے لویہ جرگہ نے جمہوریت کو مستحکم کرنے کا فیصلہ دیا۔
تجزیہ کار میر ویس افغان کے مطابق مجاہدین کے دور میں بھی کابل میں جرگہ منعقد ہوا اور بعد میں طالبان کے راہنما ملا عمرکا انتخاب بھی ایک جرگے کے فیصلے کے تحت ہوا۔ اسی پس منطر میں تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ طالبان کے لیے لویہ جرگہ کی سفارشات کو نظر انداز کرنا آسان نہ ہو گا، بھلے وہ جرگے کے فریق نہیں لیکن افغان معاشرے کا حصہ ہیں۔