ٹی ٹوئنٹی کی عالمی چیمپئن آسٹریلیا نے لاہور میں کھیلے گئے واحد ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ میں پاکستان کو تین وکٹ سے شکست دے کر اپنے دورے کا اختتام کامیابی سے کیا۔ 24 سال بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی آسٹریلوی ٹیم کے کپتان ایرن فنچ نے میچ کے بعد گرین شرٹس کے کپتان بابر اعظم کی بلے بازی اور پاکستان کی مہمان نوازی کی تعریف کی۔
ٹی ٹوئنٹی میچ میں جہاں دونوں ٹیموں کے درمیان کانٹے کے مقابلے پر مداح خوش تھے وہیں پاکستان ٹیم میں آؤٹ آف فارم حسن علی کی واپسی پر سوشل میڈیا صارفین سلیکٹرز سے ناراض نظر آئے۔
میچ میں جب آسٹریلوی ٹیم پاکستان کے دیے گئے 163 رنز کے ہدف کا تعاقب کر رہی تھی تو حسن علی نے اپنے پہلے اور اننگز کے دوسرے ہی اوور میں 14 رنز دے کر مہمان ٹیم کے لیے ہدف کا تعاقب آسان بنا دیا۔ اننگز کے دوران تین اوورز میں انہوں نے بغیرکوئی وکٹ لیے30 رنز دیے۔
البتہ میچ کے بعد آن لائن پریس کانفرنس میں پاکستانی کپتان بابر اعظم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے حسن علی کی سلیکشن کا دفاع کیا اور انہیں ایک اچھا کھلاڑی قرار دیا۔
بابر اعظم نے کہا کہ حسن علی نےپاکستان کو بہت میچز جتوائے ہیں۔ان کا ابھی برا وقت چل رہا ہے۔انہیں سپورٹ کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
حسن علی کی حالیہ کارکردگی
24 برس بعد آسٹریلیا کے دورۂ پاکستان کے اختتام پر حسن علی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے مہمان ٹیم کا پاکستان آنے پر شکریہ ادا کیا، ساتھ ہی انہوں نے حالیہ دنوں میں اپنی ناقص کارکردگی کو بھی تسلیم کیا۔
حسن علی کی حالیہ پرفارمنس دیکھی جائے تو گزشتہ دس ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں حسن علی نے سات بار سات رنز فی اوورز سے زیادہ دیے ہیں جس میں ایک میچ کے چار اوورز میں 39 اور نو اوورز میں 84 رنز بھی شامل ہیں۔
ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں تو ان کا ریکارڈ اس سے بھی برا ہے، گزشتہ دس میں سے صرف تین میچز میں انہوں نے سات رنز فی اوورز کے حساب سے رنز دیےہیں، دو بار وہ چار اوورز میں 44 رنز دے چکے ہیں جب کہ جس میچ میں انہوں نے ایک اوور میں چار رنز دیے تھے، وہ بارش کی وجہ سے ختم کر دیا گیا تھا۔
آسٹریلیا کے حالیہ دورۂ پاکستان میں بھی حسن علی کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی۔ انہوں نے تین میں سے دو ٹیسٹ میچز میں 63 اوورز میں صرف دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
اس کے علاوہ دو ون ڈے میچز جن میں پاکستان نے آسٹریلیا کو شکست دی، حسن علی اس فائنل الیون کا حصہ نہیں تھے۔ انہیں پہلے ون ڈے میچ میں آٹھ اوورز میں 56 رنز دینے کے بعد اگلے دو میچز میں نہیں کھلایا گیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ برس ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی حسن علی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی۔ آسٹریلیا کے خلاف ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے سیمی فائنل میں ان کی نہ بالنگ اچھی رہی تھی اور نہ ہی فیلڈنگ اور ایک اہم موقع پر انہوں نے آسٹریلوی بیٹر کا کیچ بھی ڈراپ کردیا تھا۔
حسن علی نے میگا ایونٹ کے دوران پانچ میچز میں چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا لیکن اکانومی ریٹ اور اوسط کے لحاظ سے وہ پاکستان کے سب سے مہنگے بالر رہے۔ انہوں نے یہ چھ وکٹیں 41 اعشاریہ چار کی اوسط سے نو رنز فی اوورز کے حساب سے حاصل کیں۔
خیال رہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں آسٹریلوی بیٹر میتھیو ویڈ سے مسلسل تین چھکے کھانے والے شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کا اکانومی ریٹ ساڑھے سات رنز فی اوور سے بھی کم تھا۔
دوسری جانب رواں سال پاکستان سپرلیگ کے آغاز سے قبل جب صحافیوں نے حسن علی سے ان کی پرفارمنس پر سوال کیا تووہ صحافیوں سے الجھ پڑے، جس کے بعد اسلام آباد کے صحافیوں نے اسلام آباد یونائیٹڈ کی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا۔
حسن علی کو شاہنواز داہانی پر ترجیح دینے پر تنقید
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کوچ وقار یونس نے ٹی ٹوئنٹی میچ میں حسن علی کو شاہنواز داہانی پر ترجیح دینے پر سلیکٹرز کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ حسن علی فارم میں نہیں، ان کی جگہ اگر شاہنواز داہانی کو کھلایا جاتا تو بہتر ہوتا۔وقار یونس کی طرح شائقین کرکٹ سمجھتے ہیں کہ واحد ٹی ٹوئنٹی کے لیے کہ شاہنواز داہانی حسن علی سے بہتر آپشن تھے۔
واضح رہے کہ شاہنواز داہانی نے پاکستان سپر لیگ کے ساتویں ایڈیشن میں 17 وکٹیں حاصل کی تھیں اور وہ اس وقت قومی ٹیم کے اسکواڈ کا حصہ ہیں۔
حسن علی پر تین سال قبل بھی ایسا ہی وقت آیا تھا۔ سال 2019 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سب سے کمزور بالر ثابت ہوئے تھے جس کے بعد انہیں فٹنس وجوہات کی وجہ سے ٹیم سے باہر کر دیا گیا تھا۔
میگا ایونٹ میں انہوں نے صرف چار میچز کھیلے تھے جس میں انہوں نے دوکھلاڑیوں کو 128 کی اوسط سے آؤٹ کیا۔اکانومی ریٹ کےلحاظ سے تو وہ ٹیم کے سب سے مہنگے بالر ثابت ہوئے۔ان کے مقابلے میں محمد عامر 17، شاہین آفریدی 16 اور وہاب ریاض 11 وکٹوں کے ساتھ نمایاں بالر رہے تھے۔
سال 2020 میں مکمل طور پر پاکستانی ٹیم سے باہر رہنے کے بعد حسن علی نے 2021 میں پاکستانی ٹیم میں کم بیک کیا ، اس کی وجہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان کی بہتر کارکردگی تھی۔
قائد اعظم ٹرافی میں سینٹرل پنجاب کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے نہ صرف 43 وکٹیں حاصل کیں، بلکہ اظہر علی کی غیر موجودگی میں فائنل میں ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے سینچری بھی اسکور کی۔
وہ فائنل میں نہ صرف پلیئر آف دی میچ رہے بلکہ انہیں 43 وکٹوں کے ساتھ 273 رنز بنانے پرپلیئر آف دی سیریز بھی قرار دیا گیا۔
شائقین حیدر علی کی جگہ افتخار احمد کی سلیکشن پر ناخوش
ایک طرف شائقین کرکٹ کے خیال میں حسن علی کی جگہ شاہنواز داہانی کو فائنل الیون میں ہونا چاہیےتھا تو دوسری جانب لوگ حیدر علی کی جگہ افتخار احمد کو ترجیح دینے پر ناراض نظر آئے۔
سینئر صحافی مرزا اقبال بیگ کے خیال میں آسٹریلیا کے خلاف واحد ٹی ٹوئنٹی میچ کی فائنل الیون میں حسن علی اور افتخار احمد کی جگہ شاہنواز داہانی اور حیدر علی کو ہونا چاہیے تھا۔
سینئر اسپورٹس صحافی رضوان احسان علی نے سوال اٹھایا کہ حسن علی، افتخار احمد اور آصف علی کو ناقص کارکردگی کے باوجود کیوں منتخب کیا جا رہا ہے۔
ایک اور صحافی عمران صدیق سمجھتے ہیں کہ شاہنواز داہانی کا بینچ پر اور حسن علی کا فیلڈ میں ہوناصرف پاکستا ن میں ہی ممکن ہے۔
ٹوئٹر پر ایک اور صارف نے لکھا کہ حسن علی کو پہلے ون ڈے کے بعد ڈراپ کرکے پاکستان نے باقی دونوں میچز جیتے۔ لیکن ان کی ٹی ٹوئنٹی میچ میں واپسی کے ساتھ ہی پاکستان ٹیم پھر میچ ہار گئی۔