پاکستان کے علاقے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی حمیدہ بی بی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو لینڈ مائنز یعنی بارودی سرنگوں کا شکار ہو کر معذوری سے دوچار ہیں۔
حمیدہ بی بی نے بتایا کہ وہ کہیں آ جا نہیں سکتیں اور وہ نئی ٹانگ لگنے کی منتظر ہیں۔
حمیدہ کے والد مصطفی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی بیٹی 17 جنوری 2017 کو پہاڑوں پر بکریاں چرانے گئی تھی اور وہاں اس کا پاؤں ایک بارودی سرنگ پر آ گیا اور زور دار دھماکے کے نتیجے میں حمیدہ شدید زخمی ہو گئی۔
مصطفی کے بقول اس واقعے کے بعد حمیدہ کا پاؤں گھٹنے سے نیچے کاٹنا پڑا۔بعدازاں علاقے کے پولیٹیکل ایجنٹ نے 30 ہزار روپے بطور امداد دیے لیکن وہ حکومت کی جانب سے معاوضے اور حمیدہ کی تعلیم کے لیے مناسب بندوبست کے منتظر ہیں۔
پاکستان میں لینڈ مائنز کے متاثرین کا ڈیٹا جمع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں حالیہ برسوں میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے جانے والے آپریشنز کے بعد جب لوگ اپنے گھروں اور علاقوں میں واپس گئے تو اس قسم کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
پاکستان میں ان واقعات کی ایک وجہ بارودی سرنگوں سے متعلق آگاہی کا تقریباً نہ ہونا بھی ہے۔ دنیا بھر میں چار اپریل کو لینڈ مائنز سے متعلق شعور پھیلانے کا دن منایا جاتا ہے۔ بارودی سرنگوں سے ہونے والے نقصان کا ڈیٹا جمع کرنے والی تنظیم 'لینڈ مائین کلسٹر مینیشن مانیٹر' کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں بارودی سرنگوں سے 7073 افراد متاثر ہوئے جن میں سے 2492 افراد ہلاک ہوئے۔
اسی ادارے کی 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2016 میں بارودی سرنگوں کی وجہ سے 161 افراد متاثر ہوئے تھے جن میں سے 54 ہلاک جب کہ 107 زخمی ہوئے۔
پاکستان میں لینڈ مائنز کے متاثرین کا ڈیٹا جمع کرنے والے عالم زیب محسود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں سیکیورٹی آپریشنز کے بعد کئی مقامات پر بارودی سرنگوں کو صاف نہیں کیا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اکثر بارودی سرنگیں فوج نے اپنی چوکیوں کی حفاظت کے لیے بچھائی تھیں۔ لیکن جب فوج ان چوکیوں سے آگے بڑھی تو انہوں نے ان بارودی سرنگوں کو، ان کے بقول، صاف نہیں کیا اور یہی بارودی سرنگیں بارش کی وجہ سے ندی نالوں میں بھی کبھی کبھی آ جاتی ہیں جہاں انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔
گزشتہ چار برسوں میں بارودی سرنگوں کے تین واقعات ہوئے ہیں: ڈپٹی کمشنرشمالی وزیرستان
'مائین ایکشن ریویو' کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام کا یہ مؤقف رہا ہے کہ یہ بارودی سرنگیں دہشت گردوں نے شورش زدہ علاقوں میں بچھائی تھیں۔
عالم زیب محسود کہتے ہیں پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) نے جب قبائلی علاقوں کے مسائل کو اجاگر کرنا شروع کیا اور بارودی سرنگوں سے متعلق اس نے 2018 میں آواز اٹھائی تو حکومت نے کئی وعدے بھی کیے اور معاہدے بھی ہوئے۔ ان کے بقول اگرچہ حکومت نے بارودی سرنگوں کے خاتمے پر کام بھی کیا ہے لیکن اس کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں۔
عالم زیب کے خیال میں ان علاقوں میں لوگ اب بھی خوف و دہشت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ ماہ وائس آف امریکہ کے نمائندے نذرالاسلام سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان شاہد علی خان نےبتایا تھا کہ گزشتہ چار برسوں کے اعداد و شمار کے مطابق ان کے علاقے میں بارودی سرنگوں سے متاثر ہونے کے صرف تین ہی واقعات رونما ہوئے ہیں۔
شاہد علی خان کے مطابق جن علاقوں کو ابھی لوگوں کی واپسی کے لیے کھولا جا رہا ہے وہاں اس سلسلے میں 'لیول تھری کلئیرنس' دی جا رہی ہے یعنی ایسے علاقے جہاں بارودی سرنگوں کا خاتمہ یقینی بنالیا گیا ہے وہاں لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔
ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان پرامید ہیں کہ وہ لوگ جو سیکیورٹی آپریشنز کی وجہ سے علاقہ چھوڑ گئے تھے ان کی مکمل واپسی تک بارودی سرنگوں کا مسئلہ حل ہو چکا ہوگا۔