کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے سائنس دانوں نے ویکسین تیار کرنے کی اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور ان دنوں برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی اور اسڑا زینکا اپنی ایک ویکسین کے انسانوں پر تجربات کے مرحلے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ دونوں ادارے تقریباً دس ہزار رضاکار بھرتی کر رہے ہیں جن میں ہر عمر کے افراد شامل ہوں گے۔
امریکہ نے کرونا وائرس کی ویکسین پر تجربات کا سلسلہ آگے بڑھانے کے لیے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کے فنڈز دیے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 10260 رضاکاروں کی بھرتی کا کام شروع ہو گیا ہے، جنہیں ویکسین دے کر یہ مشاہدہ کیا جائے گا کہ انسان کا معدافتی نظام اس پر کیا ردعمل ظاہر کرتا ہے اور یہ کہ اس کا استعمال کتنا محفوظ ہے۔
ماہرین کی ٹیم انسان پر ویکسین کے تجربات کے لیے زیادہ تر ایسے افراد کو تلاش کر رہے ہیں جن کا تعلق ہیلتھ کیئر سے ہو یا وہ عوامی خدمات کے لیے کام کرنے والے کارکن ہوں، تاکہ ویکسین کے متعلق واضح طور پر بتا سکیں۔
اس سلسلے کے ابتدائی تجربات 23 اپریل کو شروع ہوئے تھے اور ایک ہزار سے زیادہ رضاکاروں کو ویکسین کے انجکشن دیے گئے تھے جن کی عمریں 18 سے 55 سال کے درمیان تھیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی نے کہا ہے کہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں 56 سال سے زیادہ عمر کے افراد اور 5 سے 12 سال کی عمروں کے بچوں کو شامل کیا جائے گا۔
اسڑازینکا کے ایکزیکٹو مینی پینگالس کہتے ہیں کہ نئی ویکسین پر انسانی تجربات بہت برق رفتاری سے ایڈوانس مراحل میں داخل ہوئے ہیں، جس کی وجہ آکسفورڈ کی شاہکار سائنسی تحقیق ہے۔
تاہم، آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انسان پر ویکسین کے تجربات کے نتائج سامنے آنے میں دو سے چھ مہینے تک لگ سکتے ہیں۔
برطانیہ کی دوا ساز کمپنیوں نے پہلے ہی برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کر دیے ہیں، جس سے بڑے پیمانے پر ویکسین تیار کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اور جب یہ شواہد مل جائیں گے کہ ویکسین کا استعمال انسان کے لیے محفوظ ہے اور وہ کرونا وائرس کے خلاف مؤثر ہے، تو دنیا بھر میں اس کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔
اسٹرازینکا کے چیف ایکزیکٹو پاسکل سوریاٹ نے پچھلے مہینے کہا تھا کہ اس بارے میں حتمی نتائج کہ ویکسین کس حد تک مؤثر ہے، جون یا جولائی میں سامنے آئیں گے۔
یونیورسٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر تحقیقی کام تیزی سے جاری تیز رہا تو ہمیں جلد ہی اس قدر مواد مل جائے گا جس سے دو تین مہینوں کے اندر ہی یہ نتیجہ نکالا جا سکے گا کہ ویکسین کتنی مؤثر ہے۔ لیکن اگر یہ رفتار کم رہی تو نتائج سامنے آنے میں چھ ماہ تک لگ سکتے ہیں۔
صحت کے عالمی ادارے نے 15 مئی کو انسانوں پر تجربات کے لیے آٹھ ویکسینز کی منظوری دی تھی۔ ان میں ماڈرینا انک، انوویا، فائزر انک اور بائیو این ٹیک شامل ہیں۔ جب کہ چین کی دو کمپنیوں کین سنیو اور سینو ویک کی تیار کردہ ویکسنز کو بھی انسانی تجربات کے لیے منظوری مل گئی ہے۔
دوسری جانب ایک سائنسی طبی جریدے لینسٹ میں جمعے کے روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کوویڈ 19 کی ویکسین کے ابتدائی نتائج اگرچہ مثبت ہیں۔ تاہم، وہ اتنے زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین نے ویکسین کے ابتدائی انسانی ٹیسٹ کیے ہیں، جس پر مدافعتی نظام نے اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ لیکن بعض مریضوں پر اس کا منفی اثر ہوا اور سائیڈ ایفکٹس دیکھے گئے۔
اس وقت وائرس کی روک تھام کے لیے دنیا بھر میں 100 سے زیادہ ویکسینز تیاری کے مراحل ہیں، جب کہ صحت کے عالمی ادارے نے 8 کو انسانی تجربات کے لیے منظور کر لیا ہے۔