رسائی کے لنکس

پاکستان میں کرونا کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ، کیا سخت لاک ڈاؤن ہی واحد حل ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی میں سخت گرمی کے باوجود آغا خان اسپتال کی پارکنگ میں لوگ چھ فٹ کے فاصلے سے قطار میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ قطار کرونا وائرس کا ٹیسٹ کرانے والوں کی ہوتی ہے جن کے لیے پارکنگ میں ہی عارضی لیبارٹری بنائی گئی ہے۔

آغا خان اسپتال کی کار پارکنگ میں ایک شامیانے کے نیچے فاصلے سے کرسیاں رکھی گئی ہیں۔ یہاں کرونا وائرس ٹیسٹ کرانے کے لیے آنے والوں کو طویل انتظار کے بعد 7900 روپے کے عوض ٹیسٹنگ کا سامان مہیا کیا جاتا ہے۔

پھر کرونا کے مشتبہ مریض کی ساری تفصیلات، شناختی کارڈ نمبر اور رابطہ نمبر معلوم کر کے اسے ایک شیشے کے بوتھ کے سامنے بھیجا جاتا ہے۔ بوتھ میں ایک شخص موجود ہوتا ہے جو ایک باریک سی تار ناک میں داخل کر کے ٹیسٹ کے لیے نمونے لیتا ہے۔

پھر وہ تار ایک ڈبے میں بند کر کے کہا جاتا ہے کہ آپ کا ٹیسٹ ہو چکا ہے۔ لیکن یہ عمل اتنا آسان نہیں جتنا دیکھنے میں لگتا ہے۔ جو شخص اس ٹیسٹ سے گزرتا ہے، وہی اس کی تکلیف اور بعد کی اذیت بیان کر سکتا ہے۔

نجی اسپتالوں میں یہ ٹیسٹ مہنگا ہے۔ لیکن ٹیسٹ کرانے والوں کا رش بتا رہا ہے کہ کرونا کے پھیلاؤ کا معاملہ اب سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتی سطح پر کرونا ٹیسٹنگ کے لیے قائم ہیلپ لائن 1166 پر موصول ہونے والی ہزاروں کالز اور روزانہ ہزاروں ٹیسٹوں کے نتائج بھی یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ آنے والا وقت کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں پلازما تھراپی کے ذریعے علاج
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:36 0:00

پاکستان میں 23 مارچ سے شروع ہونے والے لاک ڈاؤن نے عوام کو خبردار کیا تھا کہ حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ اس لیے احتیاط برتیں اور سماجی فاصلوں کے اصول پر عمل درآمد کریں۔ لیکن رمضان کے آخری ہفتوں میں لاک ڈاؤن نرم ہوا تو بازاروں میں امڈ آنے والے ہجوم نے سماجی فاصلوں کے احکامات ہوا میں اڑا دیے۔

اب کرونا وائرس کی وبا کسی تفریق کے بغیر سب کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔ اب یہ صورتِ حال ہے کہ اسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ ختم ہو رہی ہے۔ اسپتال کرونا کے بڑھتے مریضوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں جب کہ معالجین کی جانیں بھی وائرس کی نذر ہو رہی ہیں۔

لاک ڈاؤن کے دوران حکومت نے کیا اضافی اقدامات کیے؟

صوبۂ سندھ کی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران سندھ حکومت نے صوبے میں آئی سی یو بیڈز کی تعداد میں 255 بیڈز کا اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ 504 ہائی ڈپنڈینسٹی یونٹس بیڈرز، 1063 آئسولیشن بیڈز بھی اسپتالوں کو دیے گئے۔

اگر ان میں سے کراچی کو دی جانے والی سہولیات پر نظر ڈالی جائے تو مختلف اسپتالوں کو 54 وینٹی لیٹرز فراہم کیے گئے جب کہ ہائی ڈپنڈینسی یونٹس، جہاں آکسیجن فراہم کی جاتی ہے، میں 82 بیڈز کا اضافہ کیا گیا۔ کراچی کے اسپتالوں میں آئسولیشن بیڈز کی تعداد بڑھا کر 196 کر دی گئی ہے۔

ڈاکٹر عذرا کے مطابق کراچی میں کرونا کے بڑھتے کیسز کو مدنظر رکھتے ہوئے جون میں 160 جب کہ جولائی میں 50 آئی سی یو بیڈز اسپتالوں کو فراہم کیے جائیں گے۔ جب کہ ہائی ڈپنڈینسی یونٹس کی تعداد جون میں 453 تک پہنچائی جائے گی اور جولائی میں مزید 187 یونٹس کراچی کے اسپتالوں کو دیے جائیں گے۔

یوں جولائی تک کراچی میں آئی سی یو بیڈز کی مجموعی تعداد 210 جب کہ ہائی ڈپنڈینسی یونٹس 640 ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر عذرا کا کہنا تھا کہ وفاق نے عباسی شہید اسپتال کو ہائی ڈپنڈینسی یونٹ میں تبدیل کرنے کی تجویز دی ہے جسے ہم نے خوش آمدید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ اس میں ہماری مدد کریں۔

انہوں نے کہا کہ اگر وفاق عباسی شہید اسپتال کو ایچ ڈی یو بناتا ہے تو یہ سب کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا۔

لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ درست تھا یا غلط؟

انڈس اسپتال کے ڈاکٹر محمد کاشف شازلی کے مطابق سندھ میں لگنے والے پہلے لاک ڈاؤن کا فیصلہ ڈاکٹروں کی مشاورت سے کیا گیا تھا۔ اس وقت ڈاکٹروں نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر وبا کے پھیلاؤ میں کمی رکھنی ہے تو لاک ڈاؤن کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ابتدا میں جب لاک ڈاؤن سخت تھا تو سندھ میں کیسز کی تعداد کم تھی۔ اس دوران افرادی قوت میں اضافہ، طبّی عملے کی تیاری اور کرونا کے مریضوں کے علاج کے لیے استعداد میں اضافے کے انتظامات اور سہولیات کو بڑھانا تھا۔

ڈاکٹر کاشف شازلی کے بقول بدقسمتی سے حکومت نے لاک ڈاؤن تو کرا دیا لیکن خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے جو بہت ضروری تھے۔

دوسری جانب جناح اسپتال کی ڈاکٹر سیمی جمالی کہتی ہیں کہ جو لاک ڈاؤن پہلے ہوا تھا، وہ بھی کچھ زیادہ مؤثر نہیں تھا۔ ان کے بقول کچھ مخصوص علاقوں میں سختیوں اور پابندیوں کا اطلاق کیا گیا لیکن اس کے باوجود لوگ آپس میں ملتے رہے۔

پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کی نئی مشکلات
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:46 0:00

ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا کہ اُس دوران بھی کرونا کے کیسز متواتر سامنے آ رہے تھے اور پھر جب وائرس کا پھیلاؤ تیز ہونا شروع ہوا تو بجائے سختی کے، لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کر دی گئی۔ بازار کھلتے ہی عوام بے احتیاطی کرتے دکھائی دیے۔ یہی وجہ ہے کہ عید کے بعد کیسز میں ہوش رُبا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

سول اسپتال کے ڈاکٹر خادم حسین بھی لاک ڈاؤن کو بے اثر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ لاک ڈاؤن تو ان کی سمجھ سے باہر تھا جس میں کاروبار تو بند تھا لیکن لوگوں کی نقل و حرکت پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی۔

ان کے بقول اب حالات یہ ہیں کہ بزرگوں کے ساتھ جوان بھی کرونا کا شکار ہو کر اسپتال آ رہے ہیں اور اب ہونے والی اموات میں صرف بڑی عمر کے لوگ نہیں، بلکہ ہر عمر کے افراد شامل ہیں۔

کیا کسی نئے لاک ڈاؤن پر غور ہو رہا ہے؟

وزیرِ صحت سندھ ڈاکٹر عذرا کے مطابق عالمی ادارۂ صحت نے دو ہفتے سخت اور دو ہفتے نرمی کے ساتھ لاک ڈاؤن کا مشورہ دیا ہے۔ اس سلسلے میں ہم وفاقی حکومت سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ کیوں کہ لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ انہی کا تھا۔ جب تک تمام صوبے ایک پیج پر نہیں ہوتے اور وفاقی حکومت ان کا ساتھ نہیں دیتی تب تک ہم اکیلے کچھ نہیں کر سکتے۔

ڈاکٹر عذرا پیچوہو کے مطابق لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد ہم مریضوں کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ دیکھ رہے ہیں، ہم کتنی ہی سہولیات فراہم کر دیں لیکن اس صورتِ حال پر قابو نہیں پا سکیں گے۔ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ جب ہمارے پاس بیڈز نہیں ہوں گے، وینٹی لیٹرز نہیں ہوں گے تو کیا ہم اس وقت یہ فیصلہ کریں گے کہ بوڑھے مریض اور جوان میں سے وینٹی لیٹر کسے ملنا چاہیے؟

پنجاب میں پولیس اہلکار بھی کرونا کا شکار
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:56 0:00

انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک میں جہاں صحت کا نظام بہت ترقی یافتہ اور جدید ہے، وہاں بھی کیسز میں اضافے کے باعث ہیلتھ سسٹم بری طرح متاثر ہو گیا تھا۔ اگر یہاں پر روزانہ کی بنیاد پر 200 مریض بھی ایسے آئیں جنہیں ہر صورت اسپتال میں داخل کرنا ہو تو جتنا بھی انتظام کیا جائے وہ ناکافی ہو گا۔

اسپتالوں اور ڈاکٹروں کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟

انڈس اسپتال کے ڈاکٹر کاشف کے مطابق سندھ بھر میں کرونا کے مریضوں کے لیے مختص وینٹی لیٹرز کی تعداد 250 سے زیادہ نہیں ہے۔ جو تعداد حکومت بتا رہی ہے وہ مجموعی وینٹی لیٹرز کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہارٹ اٹیک، نمونیا، فالج اور دیگر مہلک بیماریوں میں مبتلا افراد کو بھی وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے۔ لہٰذا کرونا کے مریضوں کے لیے وینٹی لیٹرز کی تعداد مختص کی گئی ہے۔

ڈاکٹر کاشف کا کہنا تھا کہ جن وینٹی لیٹرز کے آنے کی بات کی جا رہی ہے، وہ اب تک آجانے چاہئیں تھے۔ ساتھ ہی ٹیکنیکل اسٹاف کی ٹریننگ کی بھی کمی ہے۔ اگر یہ وینٹی لیٹرز آ بھی جائیں تو انہیں چلانے والے کہاں سے آئیں گے؟

کوئٹہ میں وال پینٹنگ کے ذریعے کرونا ہیروز کو خراجِ تحسین
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:41 0:00

انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک سوال ہے کہ ایسے کتنے ڈاکٹرز ہیں جنہیں وینٹی لیٹرز چلانے کی ہنگامی بنیادوں پر تربیت دی گئی ہے۔ کیوں کہ ہر ڈاکٹر اسے آپریٹ نہیں کر سکتا۔

ادھر ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق وبا کے دنوں میں جہاں مریضوں کی تعداد بڑھنے سے ہیلتھ کیئر سسٹم متاثر ہونے کا خطرہ ہے وہیں ڈاکٹرز بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔

ڈاکٹر سیمی کے بقول ان حالات میں ڈیوٹی سر انجام دینا آسان کام نہیں ہے۔ انتظامات جتنے بھی کر لیے جائیں وہ ناکافی ہی رہیں گے۔

کیا منفی خبروں اور افواہوں سے بھی لوگ متاثر ہوئے؟

ڈاکٹر کاشف شازلی کے مطابق کرونا وائرس کے رجسٹرڈ کیسز کی تعداد تو سب کے سامنے ہے لیکن ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو کرونا کی علامات ظاہر ہونے کے باوجود سامنے نہیں آ رہے۔

ان کے بقول بے بنیاد خبروں اور جھوٹی افواہوں پر دھیان دیتے ہوئے بہت سے لوگ اسپتال نہیں آ رہے اور نہ ہی ٹیسٹ کرا رہے ہیں۔ وہ اس صورت میں اسپتال آتے ہیں جب ان کی حالت بگڑ چکی ہوتی ہے۔ تب انہیں بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر سیمی جمالی اس حوالے سے کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر کرونا کے خلاف مہم چلانے والوں نے بھی لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ ایسی من گھڑت خبروں اور افواہوں کو فروغ دینے والوں کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو یہ وبا ایک مذاق محسوس ہو رہی ہے۔

سرکاری و نجی اسپتالوں میں اس وقت کیا حالات ہیں؟

سول اسپتال کے ڈاکٹر خادم حسین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت اسپتال میں کرونا کے مریضوں کے لیے 45 بستروں پر مشتمل ایک آئیسولیشن وارڈ ہے جب کہ ان حالات میں 164 بستروں پر مشتمل ہائی ڈپنڈینسی یونٹ بھی بنایا گیا ہے۔

ان کے بقول اس وقت 40 مریض آئیسولیشن وارڈ میں اور 70 کے قریب مریض ایچ ڈی یو میں زیرِ علاج ہیں۔ کووِڈ 19 کے مریضوں کے لیے مختص آئی سی یو میں 12 وینٹی لیٹرز موجود ہیں جو موجودہ صورتِ حال میں ناکافی ہیں۔

ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق جناح اسپتال میں اس وقت 46 مریض داخل ہیں اور اسپتال میں مزید 50 بیڈز شامل کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ جناح اسپتال میں اس وقت 24 وینٹی لیٹرز کی سہولت موجود ہے جو کووِڈ 19 کے مریضوں کے لیے مختص ہیں۔

انڈس اسپتال میں 40 بستروں پر مشتمل کووِڈ وارڈ بنایا گیا ہے جس میں 17 وینٹلی لیٹرز موجود ہیں۔ لیکن اب اس وارڈ میں نئے مریضوں کے لیے جگہ موجود نہیں۔

XS
SM
MD
LG