رسائی کے لنکس

بھارت: ہندوتوا کا داعش سے موازنہ کرنے پر سلمان خورشید کے خلاف احتجاج، گھر نذرِ آتش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں کانگریس کے رہنما اور سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کی حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی کتاب ’سن رائز اوور ایودھیا: نیشن ہڈ ان آور ٹائمز‘ میں ہندوتوا پر تنقید کی وجہ سے ان کے خلاف دائیں بازو کی جماعتیں شدید ردِ عمل ظاہر کر رہی ہیں۔

سلمان خورشید کی کتاب میں سپریم کورٹ کے ایودھیا تنازع میں دیے گئے فیصلے کی حمایت کی گئی ہے البتہ ان کے اس جملے پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ تنظیموں کو اعتراض ہے جس میں ہندوتوا کا موازنہ داعش اور بوکو حرام جیسی مسلم انتہاپسند تنظیموں سے کیا گیا ہے۔

سلمان خورشید نے لکھا ہے کہ ’سنت مہاتماؤں کے نام سے معروف سناتن دھرم اور کلاسیکی ہندو ازم کو سیاسی ورژن والے ہندوتوا کے ذریعے، جو کہ داعش اور بوکو حرام جیسی جہادی اسلامی گروہوں کی مانند ہے، ایک طرف دھکیلا جا رہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق پیر کو نینی تال میں واقع ان کے مکان پر ہندوتوا کی حامی تنظیم ’بجرنگ دل‘ کے کارکنوں نے حملہ کیا اور اسے نذرِ آتش کر دیا۔

سلمان خورشید نے فیس بک پر ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں مکان کو جلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

انھوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ کیا میں یہ کہنے میں غلط ہوں کہ یہ ہندوازم نہیں ہو سکتا۔

کماوں کے ڈی آئی جی نیلیش آنند نے خبر رساں ایجنسی ’اے این آئی‘ کو بتایا کہ اس سلسلے میں 21 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایک شخص راکیش کپل اور دیگر 20 افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلمان خورشید ایک بڑے سیاست دان ہیں جنھوں نے عالمی فورمز پر بھارت کا وقار بلند کیا ہے۔ برسرِ اقتدار طبقے کو چاہیے کہ وہ ملکی سیاست میں اس قسم کی عدم برداشت کی مذمت کرے۔

سینئر کانگریس رہنما دگ وجے سنگھ نے بھی اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان پڑھ لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ کتاب میں کیا لکھا ہے۔

اس واقعہ کے بعد ہی سینئر کانگریس رہنما راہول گاندھی نے کہا کہ ہندوتوا اور ہندو ازم میں فرق ہے۔

دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی سلمان خورشید کے گھر پر حملے کی مذمت کی ہے اور اسے بزدلانہ اقدام قرار دیا ہے۔

تاہم کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد نے سلمان خورشید کے موازنے سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوتوا کا موازنہ داعش اور بوکو حرام سے کرنا مبالغہ آمیز ہے۔

ملک کے سیکولر جمہوری ڈھانچے پر حملہ

دہلی یونیورسٹی میں استاد ڈاکٹر لکشمن یادو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر کسی کو کسی کی کتاب میں لکھی کسی بات سے اختلاف ہے تو خود سلمان خورشید نے کہا ہے کہ آپ کوئی دوسری کتاب لکھ کر اس بات کو مسترد کر دیجیے۔

ان کے مطابق جو لوگ ہنگامہ کر رہے ہیں وہ تو اقتدار میں ہیں وہ قانونی راستہ اختیار کر کے جواب دے سکتے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ سلمان خورشید نے ایک سیاست دان ہونے کے باوجود ہندوتوا کے حامیوں کو سخت ردِ عمل ظاہر کرنے کا ایک موقع دے دیا۔ تاہم ان کی بات کا جواب تشدد سے دینے کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ اس سلسلے میں عام لوگوں کو بھی سوچنا ہو گا کہ آج ایک سیاست دان کا گھر جلایا گیا ہے۔ کل کسی اور کا بھی جلایا جا سکتا ہے۔ ایسے واقعات اگر تواتر سے ہونے لگے تو انھیں روک پانا مشکل ہو جائے گا۔

بھارتی کشمیر: 'پاکستان کی جیت پر خوشی منانا تو کوئی گناہ نہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:02 0:00

انھوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں لوگوں کو اظہارِ خیال اور ہر قسم کے حقوق کی آزادی ہوتی ہے۔ جمہوری نظام میں ریاست شہریوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ کیوں کہ ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ وہ سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھتی ہے۔

اس واقعہ کے حوالے سے انھوں نے مزید کہا کہ اس ملک میں اب سیاسی نظریے کو قومی نظریے پر تھونپا جا رہا ہے اور ہندو راشٹر بنانے کا خواب دکھایا جا رہا ہے۔ یعنی وہ بھارت راشٹر کو ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ اس کی بار بار کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کے بقول اقلیتوں کے افراد پر جتھوں کے حملے اور دلتوں پر تشدد اور ایسے تمام واقعات ہندو راشٹر بنانے کی سمت میں جا رہے ہیں۔ ریاست کی شکل میں بھارت کا جو سیکولر جمہوری تشخص ہے ان واقعات سے اس کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ جمہوری ڈھانچے پر حملہ ہے۔

’سلمان خورشید کی بات سچ ثابت‘

مصنف، قلم کار اور دانش ور ڈاکٹر سنیل مشرا نے کہا کہ ہندوتوا کا موازنہ اگرچہ دہشت گرد تنظیموں سے کرنا لوگوں کو عجیب لگ رہا ہے البتہ ہندوتوا کی سمت اور اس کا نظریہ وہی ہے جو انتہا پسند تنظیموں کا ہے۔ ان لوگوں کی سوچ بھی وہی ہے۔ ان لوگوں نے مذہب کا استعمال کر کے اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔ جھتوں کے حملے اور اقلیتوں پر تشدد اسی ذہنیت کا نتیجہ ہیں۔

تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ سلمان خورشید کو سنبھل کر لکھنا چاہیے تھا۔

ان کے بقول اکھلیش یادو نے محمد علی جناح کا نام لیا تو ہنگامہ ہو گیا۔ حالاں کہ انھوں نے ان کا نام جنگ آزادی کے حوالے سے لیا تھا۔ وہ تو جنگ آزادی کی تاریخ ہے اسے کون مٹا سکتا ہے۔ اگر آزادی کے حصول میں جناح کا کردار تھا تو کیا ہم ان کا نام بھی نہیں لے سکتے۔ یہ سب فرقہ وارانہ ذہنیت کا مظاہرہ ہے۔

ان کے مطابق یہی فرقہ واریت جب بنیاد پرستی کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو وہی داعش اور بوکو حرام بن جاتی ہے۔

انھوں نے الزام لگایا کہ آر ایس ایس نے مسلمانوں کے خلاف جو ماحول بنایا ہے اسی کی وجہ سے سلمان خورشید کی کتاب پر اتنا سخت ردِ عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس ردِ عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سلمان خورشید نے جو لکھا ہے درست لکھا ہے۔ ہندوتوا کے حامی لوگ خود اپنے عمل سے ان کی بات کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔

بی جے پی کی مذمت

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا الزام ہے کہ سلمان خورشید نے ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے اور کانگریس مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے فرقہ وارانہ سیاست کو آگے بڑھا رہی ہے۔

سرینگر: روزگار کے لیے آنے والے بھارتی مزدوروں کو جان کا خطرہ درپیش
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:32 0:00

بی جے پی ترجمان گورو بھاٹیہ نے اس معاملے پر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آپ اگر خاموش رہتے ہیں تو اس سے واضح ہو جائے گا کہ آپ کا نظریہ بھی ہندو مخالف ہے۔

سلمان خورشید کون ہیں؟

سلمان خورشید کانگریس سے وابستہ سینئر سیاست دان، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل، مصنف اور قانون کے استاد ہیں۔

انھوں نے 1981 میں وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کے دفتر میں افسر آن اسپیشل ڈیوٹی کی حیثیت سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔

وہ اترپردیش کے فرخ آباد لوک سبھا سیٹ سے کئی بار انتخابت جیت چکے ہیں۔

وہ 1991 میں مرکزی حکومت میں نائب وزیر برائے تجارت اور اس کے بعد وزیر خارجہ بنائے گئے۔

سلمان خورشید سابق وزیر خارجہ خورشید عالم کے فرزند اور ملک کے تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے نواسے ہیں۔

تنازعات سے ان کا پرانا رشتہ ہے۔ اس سے قبل بھی ان کے متعدد بیانات پر تنازعات پیدا ہو چکے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG