رسائی کے لنکس

بھارت میں 'لو جہاد' کے خلاف قانون سازی کی تیاری


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی پانچ ریاستوں کی حکومتوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ 'لو جہاد' کے خلاف قانون وضع کرنے جا رہی ہیں۔ اِن پانچوں ریاستوں میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق 'لو جہاد' ایک اصطلاح ہے جس کا اختراع دائیں بازو کی ہندوتوا نواز جماعتوں نے ہندو خواتین کی مسلم مردوں سے ہونے والی شادی کے بارے میں کیا ہے۔

'لو جہاد' کی اصطلاح کا پرچار کرنے والے الزام عائد کرتے ہوئے مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر اُن کا مذہب تبدیل کراتے ہیں اور پھر اُن سے شادی کرلیتے ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلم لڑکے کو ہندو لڑکی سے شادی کرنے پر خلیجی ملکوں سے دس دس لاکھ روپے ملتے ہیں۔ تاہم تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے علمبرادروں کے مطابق اس طرح کے الزامات لگانے والے اس سلسلے میں آج تک ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔

یاد رہے کہ بھارت کے نائب وزیرِ داخلہ جی کشن ریڈی نے رواں برس فروری میں پارلیمنٹ میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی قانون میں 'لو جہاد' کی کوئی تشریح نہیں ہے اور کسی بھی مرکزی تحقیقاتی ادارے نے اس سلسلے میں کوئی رپورٹ پیش نہیں کی۔

بھارت میں گاہے بگاہے لو جہاد کا موضوع زیرِ بحث رہتا ہے۔ اِن دنوں یہ اصلاح ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے۔

ریاست اترپردیش، مدھیہ پردیش، ہریانہ، کرناٹک اور آسام کی بی جے پی حکومتوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ 'لو جہاد' کے خلاف ایک قانون لائیں گی اور جو لوگ اس میں ملوث پائے گئے، اُن کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

اگرچہ بھارت کا قانون بین المذاہب شادیاں کرنے کی اجازت دیتا ہے تاہم بعض ریاستوں نے بین المذاہب شادیوں کو غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔

سب سے پہلے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 'لو جہاد' سے متعلق قانون سازی کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جو لوگ اپنی شناخت چھپا کر شادی کرتے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ ایسے لوگوں کو مرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

یوگی آدتیہ کے اس بیان سے قبل الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش کے ایک جوڑے کی اُس درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس میں عدالت سے تحفظ کی اپیل کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ انہیں اُن کے اہل خانہ سے بچایا جائے اور زندگی جینے کا موقع دیا جائے۔

لو جہاد کی اصطلاح کا پرچار کرنے والے افراد حکومت سے مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ مذہب کی تبدیلی کر کے شادی کرنے والوں کو سزا دی جائے۔
لو جہاد کی اصطلاح کا پرچار کرنے والے افراد حکومت سے مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ مذہب کی تبدیلی کر کے شادی کرنے والوں کو سزا دی جائے۔

رپورٹس کے مطابق اس کیس میں ہندو لڑکی نے اپنا مذہب تبدیل کر کے مسلم لڑکے سے شادی کی تھی۔ لیکن عدالت کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا کہ صرف شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

لڑکی کے والدین کا الزام تھا کہ اُن کی بیٹی سے جبراً مذہب تبدیل کرایا گیا ہے۔ تاہم لڑکی نے میڈیا سے بات چیت میں اس الزام کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق 'لو جہاد' کی اصطلاح سب سے پہلے 2009 میں منظرِ عام پر آئی تھی۔ ایک ویب سائٹ 'ہندو جاگرتی ڈاٹ او آر جی' نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم یوتھ فورم نامی ایک تنظیم نے 'لو جہاد' نامی پوسٹرس آویزاں کیے ہیں جن میں ہندو لڑکیوں کو محبت کے بعد مذہب کی تبدیلی اور ان کی مسلمان لڑکوں سے شادی کی بات کہی گئی تھی۔

ریاست کیرالہ کی پولیس نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں 'لو جہاد' کے دعوے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ اس کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں۔ بعدازاں کیرالہ ہائی کورٹ کے جسٹس ایم ششی دھرن نامبیار نے بھی کہا تھا ہمارے معاشرے میں بین المذاہب شادیوں کا رواج ہے اور یہ کوئی جرم نہیں۔

مدھیہ پردیش کے وزیرِ داخلہ نروتم مشرا نے 17 نومبر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ریاستی اسمبلی میں 'فریڈم آف ریلیجن بل 2020' پیش کیا جائے گا جس میں 'لو جہاد' کے قصوروار کو پانچ سال قید کی سزا ہو گی۔

ان کے بقول اس طرح کے ملزم کی ضمانت بھی نہیں ہوگی اور جو لوگ اس فعل میں معاونت کریں گے وہ بھی مجرم تصور کیے جائیں گے۔

یاد رہے کہ مدھیہ پردیش میں اسی طرح کا ایک قانون پہلے سے موجود ہے جس کے مرتکب مجرم کو دو سال قید کی سزا ہوتی ہے۔

کشمیر میں اجتماعی شادیوں کی تقریب
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:02 0:00

ہریانہ کے وزیرِ داخلہ انل وج نے بھی 17 نومبر کو ایک بیان میں اسی طرح کا قانون لانے اور اس بارے میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ 'لو جہاد' کے مسئلے پر وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر سے تفصیلی تبادلۂ خیال کیا جا چکا ہے۔

یاد رہے کہ بلبھ گڑھ ہریانہ کی ایک 21 سالہ ہندو لڑکی کی مسلم نوجوان کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد وزیرِ اعلیٰ منوہر لال نے کہا تھا کہ ریاستی اور مرکزی حکومت 'لو جہاد' کے معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

کرناٹک کے وزیرِ سیاحت و ثقافت سی ٹی روی نے چار نومبر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ریاستی حکومت 'لو جہاد' کو ایک فوجداری جرم قرار دینے کے لیے ایک بل لائے گی۔

اُن کے بقول، "لو جہاد کے معاملے پر ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے اور ہندو لڑکیوں کی عزت سے کھلواڑ کرنے اور ان کا مذہب تبدیل کرانے والوں کو سخت سزا دیں گے۔"

اس سے قبل آسام کے بااثر سمجھے جانے والے وزیر ہیمنت بسوا شرما بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر 2021 کے اسمبلی انتخابات میں اُن کی حکومت دوبارہ بنتی ہے تو 'لو جہاد' میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

قبلِ ازیں قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئر پرسن ریکھا شرما نے مہاراشٹرا کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے ملاقات کے دوران ریاست میں مبینہ 'لو جہاد' کے بڑھتے واقعات پر اظہار تشویش کیا تھا اور خواتین کے تحفظ پر زور دیا تھا۔

ایک رپورٹ کے مطابق ہندو احیا پسند جماعت وشوا ہندو پریشد کا دعویٰ ہے کہ بھارت میں ہر سال تقریباً 20 ہزار ہندو لڑکیاں اس مبینہ سازش (لو جہاد) کا شکار ہو جاتی ہیں۔ لیکن ماہرین اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔

حال ہی میں ریاست کیرالہ کی 24 سالہ طالبہ اکھیلا نے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلم نوجوان شافعین جہاں سے شادی کر لی تھی۔ اکھیلا نے اپنا نام بھی تبدیل کر کے ہادیہ رکھ لیا ہے۔

اُن کے اس اقدام کو 'لو جہاد' قرار دیا گیا جس کے بعد کیرالہ ہائی کورٹ نے اُن کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا۔ لیکن سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے اس شادی کو جائز قرار دیا۔

ہندو لڑکیوں کی مسلم لڑکوں سے شادی کے بیشتر واقعات ریاست کیرالہ میں پیش آئے ہیں۔ اس لیے سپریم کورٹ کے حکم پر نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے 89 بین المذاہب شادیوں کی ایک فہرست مرتب کی۔

این آئی اے نے 89 کیسز میں سے 11 کی تحقیقات کی جس میں 'لو جہاد' کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

این آئی اے کے اہلکاروں کے مطابق کیرالہ میں تبدیلی مذہب جرم نہیں ہے اور جن مردوں یا عورتوں نے تبدیلی مذہب کی وہ آئین کے دائرے میں کی۔ ان گیارہ میں سے کم از کم چار شادیوں میں ہندو مردوں نے اسلام قبول کیا۔ دیگر کیسز میں ہندو عورتوں نے مسلمانوں سے شادی کی لیکن انہوں نے مذہب تبدیل نہیں کیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG