رسائی کے لنکس

بھارت: بابری مسجد انہدام کیس میں ملزمان کی بریت پر اپوزیشن کی تنقید


کانگریس کے ترجمان کے مطابق خصوصی عدالت نے تمام ملزمان کو بری کر دیا جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے منافی ہے۔ (فائل فوٹو)
کانگریس کے ترجمان کے مطابق خصوصی عدالت نے تمام ملزمان کو بری کر دیا جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے منافی ہے۔ (فائل فوٹو)

بھارت میں سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کی خصوصی عدالت کی جانب سے بابری مسجد انہدام کیس کے تمام ملزموں کو بری کرنے کے فیصلے پر کانگریس، سمیت حزب اختلاف کی کئی جماعتوں نے شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ایودھیا کیس میں سپریم کورٹ کے 9 نومبر 2019 کے فیصلے کے منافی قرار دیا ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ سی بی آئی کورٹ کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کریں۔

کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ پورا ملک جانتا ہے کہ بی جے پی، آر ایس ایس اور اس کے رہنماؤں نے کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے ملک کے فرقہ وارانہ اتحاد کو تباہ کرنے کے مقصد سے ایک سازش کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت کی اتر پردیش کی بی جے پی حکومت نے ملک کی آئینی اقدار پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہاں تک کہ ایک جھوٹا حلف نامہ داخل کر کے سپریم کورٹ کو گمراہ کیا گیا۔

ان کے بقول عدالتِ عظمیٰ نے تمام حقائق اور شواہد کو جانچنے کے بعد ہی بابری مسجد کے انہدام کو غیر قانونی اور ایک مجرمانہ فعل قرار دیا تھا۔

رندیپ سنگھ سرجے والا نے سی بی آئی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ کے فیصلے اور آئینی روایات کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ بابری مسجد کا انہدام ایک جرم اور غیر قانونی فعل تھا۔ لیکن خصوصی عدالت نے تمام ملزمان کو بری کر دیا۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بھی منافی ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے پولیٹ بیورو نے فیصلے کو انصاف کا مذاق قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک آئین سے چلتا ہے۔

پولیٹ بیورو کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس سے بھارت کا امیج مجروح ہو گا۔

بیان میں فیصلے کو آزاد عدلیہ کی کارروائی پر حملہ قرار دیا گیا۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سینٹرل سکرٹریٹ کے رکن جوگندر شرما نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ فیصلہ انصاف کے نام پر دھوکہ ہے۔ آج ملک میں جو ماحول ہے اس میں جج بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

بابری مسجد کیس کے فیصلے پر بھارتی شہریوں کا ردِ عمل
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:25 0:00

انہوں نے کہا کہ آج جو حالات ہیں ان میں آئین کے مطابق انصاف کی امید نہیں کی جا سکتی۔ اس ماحول میں انصاف نہیں ہو سکتا۔ یہ ملک فاشزم کی جانب جا رہا ہے۔

جوگیندر شرما نے مزید کہا کہ آج ضلعی اور نچلی عدالتیں ہی نہیں بلکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی دہشت زدہ ہیں۔ ہر جج خواہ وہ کسی بھی عدالت کا ہو، اتنا خوف زدہ ہے کہ اسے لگتا ہے کہ اگر اس نے حکومت، بی جے پی یا اس کی کسی اتحادی جماعت کے خلاف کوئی فیصلہ دیا تو اس کے اہلِ خانہ کو خطرات لاحق ہوں گے۔

ان کے بقول آج عدالتیں کوئی بھی فیصلہ دینے سے ڈرتی ہیں۔ جس ملک میں قانون کا راج نہیں ہوتا، وہاں جمہوریت بے معنی ہو جاتی ہے اور عوام کو ان کے حقوق نہیں ملتے۔ آج بھارت میں عوام جمہوری حقوق سے محروم ہیں۔

کمیونسٹ رہنما سیتا رام یچوری نے فیصلے کو انتہائی شرم ناک قرار دیا۔

سینئر کانگریس رہنما احمد پٹیل نے فیصلے کو چونکانے والا قرار دیتے ہوئے کہا کہ فیصلہ فطری انصاف کے اصولوں، یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے تبصرے کے بھی برعکس ہے۔

جس وقت بابری مسجد کا انہدام ہوا تھا اس وقت کے سیکرٹری داخلہ مادھو گوڈبولے اور انہدام کی تحقیقات کرنے والے جسٹس ایم ایس لبراہن نے بھی فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ دو دہائیوں سے زائد عرصے میں جمع کیے گئے تمام شواہد کے منافی ہے۔

جسٹس لبراہن نے اپنی رپورٹ میں بابری مسجد کے انہدام کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، ویشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی)، شیو سینا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے متعدد رہنماؤں کو قصور وار ٹھیراتے ہوئے کہا تھا کہ اوما بھارتی وغیرہ نے خود انہدام کا اعتراف کیا تھا۔

فیصلہ سنائے جانے سے عین قبل تک اوما بھارتی یہ بیان دیتی رہی ہیں کہ وہ بابری مسجد گرانے میں شامل رہی ہیں اور اس پر انہیں فخر ہے۔ اگر عدالت انہیں سزا سنائے گی تو وہ ضمانت کی درخواست نہیں دیں گی بلکہ جیل جانا پسند کریں گی۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے فیصلے کو جانبدارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ہندوتوا اور اس کے نظریے کے پیروکاروں کے اجتماعی شعور کو مطمئن کرتا ہے۔

مسلم تنظیموں اور شخصیات نے فیصلے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے انصاف کے بر خلاف قرار دیا ہے۔

ایسے متعدد صحافیوں نے جو کہ انہدام کے روز وہاں موجود تھے اور جنہوں نے عدالت میں اپنے بیانات قلم بند بھی کروائے تھے، فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ عدالت نے ان کی جانب سے پیش کیے جانے والے شواہد کو ماننے سے انکار کر دیا۔

متعدد انگریزی، ہندی اور اردو روزناموں نے اپنے اداریوں میں فیصلے پر سوالات اٹھائے ہیں اور پوچھا ہے کہ اگر کسی نے مسجد نہیں گرائی تو وہ کیسے گر گئی۔ اداریوں میں فیصلے کو انصاف کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ متعدد اخباروں نے خصوصی مضامین بھی شائع کیے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی، وشوا ہندو پریشد، آر ایس ایس اور اس کی حامی جماعتوں کے رہنماؤں نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے انصاف کی فتح قرار دیا ہے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر بحث جاری رہی اور ٹوئٹر پر 'بابری مسجد کسی نے نہیں گرائی' کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتا رہا۔

بالی ووڈ اداکارہ سورا بھاسکر اور رچا چڈھا نے ٹوئٹر پر لکھا کہ اوپر بھی ایک عدالت ہے جہاں روشنی ہے تاریکی نہیں ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG