بابری مسجد اور رام مندر کی اراضی کے تنازع کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے زمین مندر کی تعمیر کے لیے ہندوؤں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر ایک جانب جہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کی جانب ایک بڑا قدم ہے وہیں دائیں بازو کے نظریات کے حامل تجزیہ کار اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی ایم - مارکسسٹ) کے رہنما جوگندر شرما نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قبل بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔
جوگندر شرما کے مطابق ملک میں کوئی بھی آئینی و قانونی ادارہ نہیں ایسا نہیں رہا جس کے اختیارات کو چھیننے کی کوشش نہیں کی گئی۔ تمام اداروں کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ ملک میں قانون کا راج نہیں ہے۔
سی پی ایم کے رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندو اسٹیٹ کی جانب بڑھنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔
ان کے بقول رہی سہی کسر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے یہ کہہ کر پوری کر دی ہے کہ دفعہ 370 ختم ہو گئی۔ اب وہیں رام مندر بنے گا۔
قانون کی بالا دستی ہر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں یکساں سول قانون نافذ کیا جائے۔
جوگندر شرما کے مطابق راج ناتھ سنگھ نے اپنے بیانات سے بی جے پی کے ہندو راشٹر کے ایجنڈے کو بہت صاف کر دیا ہے اب اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آخری عدالت عوام کی ہوتی ہے اور یقین ہے کہ عوام ان اقدامات کو تسلیم نہیں کریں گے۔
'مودی حکومت مندر تعمیر کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے گی'
بائیں بازو کے نظریات کے حامل تجزیہ کار اجے آشیرواد کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو مندر تعمیر کرنے کے لیے ٹرسٹ بنانے کی ہدایت دی ہے۔ اب مودی حکومت بڑھ چڑھ کر مندر تعمیر کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے گی۔
ان کے بقول میرا خیال ہے کہ بی جے پی حکومت کا راشٹرواد یا قوم پرستی کا ایجنڈہ ہندوتوا قوم پرستی میں بدل جائے گا۔
'یہ ایک انتہائی خوبصورت اور انوکھا فیصلہ ہے'
لیکن دائیں بازو کے نظریات کے حامل سینئر تجزیہ کار این کے سنگھ اس بات کو زہریلی سوچ قرار دیتے ہیں۔
فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے ججز کی تعریف کرتے ہوئے این کے سنگھ کہتے ہیں کہ اتفاق رائے سے لکھا گیا یہ ایک انتہائی خوبصورت اور انوکھا فیصلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چار جج ہندو تھے تو ایک جج مسلم بھی تھے۔
ان کے بقول ان سب نے 500 سال پرانی ایک غلطی کی اصلاح کی ہے۔
این کے سنگھ کا کہنا تھا کہ ججز نے بے لوث ہو کر فیصلہ لکھا ہے۔ انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی کہ جب لوگ فیصلے کا تجزیہ کریں گے تو کیا کہیں گے۔
'فیصلے میں بہت خامیاں ہیں'
سپریم کورٹ کے فیصلے پر 'آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ' کے رکن کمال فاروقی نے کہا ہے کہ فیصلے میں بہت خامیاں ہیں لیکن ایک ذمہ دار کی حیثیت سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فیصلہ ہندو راشٹر کی سمت میں ایک قدم ہے۔
ان کے بقول ہندوؤں کی بہت بڑی اکثریت بھارت کو ہندو اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
کسی مندر کو توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی؟
سینئر صحافی شیلیش کہتے ہیں کہ فیصلے میں بہت تضاد ہے۔ اس کا جائزہ لیے جانے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ 1949 میں بابری مسجد میں غلط طریقے سے مورتیاں رکھی گئیں جبکہ 6 دسمبر 1992 کو غیر قانونی طریقے سے اسے منہدم کیا گیا جبکہ 1949 تک اس میں نماز ہوتی رہی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندو فریق اور محکمہ آثار قدیمہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی۔ اس کے باوجود عدالت نے مندر کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کا کافی دن تک جائزہ لیا جاتا رہے گا۔
'مسلمانوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوا'
سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس (ر) اے کے گانگولی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ ان کے لیے پریشان کن ہے۔
ان کے بقول قانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے وہ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔
جسٹس (ر) اے کے گانگولی نے مزید کہا کہ جب ہمارا آئین نافذ ہوا تھا تو بابری مسجد میں نماز ادا کی جا رہی تھی۔ وہاں 500 سال سے مسجد موجود تھی۔ عدالت کو اس کا ثبوت نہیں ملا کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی لیکن پھر بھی اس نے مسجد کو مندر بنانے کے لیے دے دیا۔
فیصلے کا اثر دیگر مقدمات پر پڑ سکتا ہے؟
بابری مسجد انہدام کی تحقیقات کرنے والے لبراہن کمیشن کے چیئرمین جسٹس ایم ایس لبرہان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اثر بابری مسجد منہدم کرنے والوں کے خلاف چلنے والے مقدمے پر پڑ سکتا ہے۔
اس سوال پر کہ اس فیصلے کی بنیاد پر کیا بابری مسجد کے انہدام کو درست ٹھہرانے کی کوشش کی جائے گی تو ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں ایسی کوشش کی جا سکتی ہے۔