بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے نو منتخب ارکان سے خطاب کرتے ہوئے اقلیتوں کا اعتماد جیتنے کی ضرورت پر زور دیا اور الزام عائد کیا کہ اپوزیشن جماعتیں ووٹ بینک کی سیاست کرتی ہیں اور انھوں نے ہی اقلیتوں کو خوف و ہراس میں رہنے پر مجبور کیا۔
انھوں نے کہا کہ ملک کے غریبوں کے ساتھ جو دھوکہ کیا گیا وہی دھوکہ اقلیتوں کے ساتھ بھی کیا گیا۔ لیکن اب ان کے اعتماد کو جیتنے، اس دھوکے کو ختم کرنے اور سب کو ترقی کے راستے پر لے جانے کی ضرورت ہے۔
مودی نے مزید کہا کہ بہتر ہوتا کہ اقلیتوں کی تعلیم پر توجہ دی جاتی، بہتر ہوتا کہ ان کے درمیان سے ہی سماجی و سیاسی قائد پیدا ہوتے اور ان کی سماجی و اقتصادی ترقی اسی رفتار سے ہوتی جس رفتار سے دوسری برادریوں کی ہوتی ہے۔
ان کے اس بیان پر نئی دہلی کی متعدد سرکردہ شخصیات نے رد عمل ظاہر کیا ہے۔ ان کے مطابق سننے میں تو یہ باتیں بہت اچھی ہیں مگر گزشتہ پانچ برسوں میں مودی حکومت کے اقدامات اس کے برعکس رہے ہیں۔
ایک معروف تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹڈیز آف ڈویلپنگ سوسائٹی (سی ایس ڈی ایس) میں اسسٹنٹ پروفیسر ہلال احمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بیان کو مثبت انداز میں لینا چاہیئے۔
لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں حکومت کرنے کا مودی کا ریکارڈ بہت خراب رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم 2002ء کے گجرات فسادات کو دیکھیں تو اس وقت بھی ان کا ریکارڈ بہت خراب تھا۔ فسادات کو اگر ہم ہندو مسلم فساد کے طور پر نہ بھی دیکھیں تب بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت بھی ان کا حکومت کرنے کا ریکارڈ خراب رہا۔
بحیثیت ایڈمنسٹریٹر وہ ناکام رہے۔ جس طرح ہجوم کی سیاست شروع ہوئی اور مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر مارا گیا تو یہ بھی حکومت کی ناکامی ہے۔ یہ جو خوف کا ماحول ہے اسے ختم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔ لیکن اس نے پچھلے پانچ برسوں میں اس کے لیے کچھ نہیں کیا۔
ہلال احمد کے مطابق 52-1950 میں مسلمانوں میں خوف و ہراس کا جو ماحول تھا وہی واپس آ گیا ہے۔ لیکن اس وقت حکومت اس ماحول کو ختم کرنے کی کوشش کرتی تھی اور آج اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مودی کو مسلمانوں کا نام لینے میں بھی تکلف ہے۔ وہ اقلیت کہہ کر آگے نکل جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مودی اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کی بات کرتے ہیں لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہو یا جامعہ ملیہ اسلامیہ یا پھر دوسرے تعلیمی ادارے، یہ حکومت ان تمام کے خلاف رہی ہے۔
اس نے سپریم کورٹ میں مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو چیلنج کر رکھا ہے۔ تو پھر کیسے سمجھ لیا جائے کہ وہ اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کے حامی ہیں۔
دہلی کانگریس کے سیکرٹری اور سپریم کورٹ کے وکیل سرفراز احمد صدیقی سوال کرتے ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ہجومی تشدد اور گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں میں خوف و ہراس کس نے پیدا کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے گائے کے تحفظ کے نام پر ہجومی قتل کے واقعات پر خاموشی اختیار کر کے شرپسندوں کی حوصلہ افزائی کی۔