امریکی کانگریس نے جمعرات کو ایک بِل منظور کرکے صدر براک اوباما کو روانہ کر دیا ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ قانون سازوں کو ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری سمجھوتے کا جائزہ لینے، اور ضروری ہو تو مسترد کرنے، کا اختیار ہونا چاہیئے۔
امریکی ایوان نمائندگان نے یہ بِل واضح اکثریت سے منظور کیا، جس کے حق میں 400 اور مخالفت میں 25 ووٹ پڑے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانون ساز اس بات پر مصر ہیں کہ اس اہم بین الاقوامی معاہدے کے حوالے سے اُنھیں زیادہ اختیار ملنا چاہیئے تاکہ جوہری پروگرام ترک کرنے کے عوض معاشی تعزیرات اٹھائی جاسکیں۔
اس سمجھوتے سے اوباما کا خارجہ پالیسی کا ریکارڈ بہتر ہوگا۔ ایسے میں جب ریپبلیکن پارٹی ایران کو جوہری صلاحیت والا ملک نہیں دیکھنا چاہتی، وہاں وہ ایران کی جانب سے وعدوںٕ کی پاسداری کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور قانون ساز وائٹ ہاؤٴس اور ایران کے درمیان ہونے والے کسی سمجھوتے کی شقوں کا جائزہ لینے کے خواہاں ہیں۔
صدارتی ترجمان، جوش ارنیسٹ نے جمعرات کو کہا ہے کہ اوباما اس بِل کو قانون کا درجہ دے دیں گے۔
امریکہ اور پانچ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مذاکرات کار جون کے آخر تک ایران کے ساتھ سمجھوتا طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں جب ایوان نمائندگان میں اس معاملے پر ووٹ دیا جا رہا تھا، میری لینڈ کے شہر کیمپ ڈیوڈ کی صدارتی رہائش گاہ میں منعقدہ اجلاس میں صدر اوباما عرب رہنماؤں کو قائل کرنے کی کوشش میں مصروف تھے کہ امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ سمجھوتا خطے کی سلامتی کی قیمت پر طے نہیں ہوگا۔
ایران کے جوہری پروگرام پر سامنے آنے والی اس قانون سازی کی وجہ سے حتمی سمجھوتے کی صورت میں صدر اوباما 30 دِن تک معاشی تعزیرات واپس نہیں لے سکیں گے، جب تک کہ قانون ساز اس کا جائزہ نہ لے لیں۔
اس بِل میں یہ درج ہے کہ اگر سینیٹر سمجھوتے کی منظوری نہیں دیتے، تو صدر اوباما اپنے موجودہ اختیارات کھو دیں گے، جس کے تحت کانگریس کی جانب سے ایران پر لاگو کی گئی معاشی تعزیرات میں وہ نرمی لا سکتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے سینیٹ کی جانب سے اِسی بِل کی منظوری دی گئی، جہاں قانون سازی کے حق میں 98، جب کہ مخالفت میں صرف ایک ووٹ پڑا۔