اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جوہری پروگرام پر حتمی سمجھوتے میں ’اسرائیل کے وجود کے حق کی توثیق کی جانی چاہیئے‘۔
اُنھوں نے یہ بات سلامتی سے متعلق اپنی کابینہ کے ارکان سے کہی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر جمعرات کی رات گئے کا اعلان، جس میں بنیادی خدوخال پر سمجھوتے کا ذکر ہے، اسرائیل کی کابینہ اُس کی مخالفت میں ’متحد‘ ہے۔
اپنے بیان میں نیتن یاہو نے کہا کہ ’یہ سمجھوتا اسرائیل، خطے اور دنیا کے لیے سنگین خطرے کا باعث ہے؛ کیونکہ، یہ ایران کی معیشت کو مضبوط کرے گا، خطے میں اُس کی جارحیت میں اضافے کا سبب بنے گا اور جوہری ہتھیاروں کی دوڑ اور جنگ کے خدشات کو بڑھاوا دے گا‘۔
یہ سمجھوتا ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان آٹھ روز کے سر توڑ مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آیا ہے، جس میں جون کے اواخر تک ایک حتمی سمجھوتے کے لیے ہدایات درج ہیں۔
طے ہونے والے سمجھوتے کے خاکے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ایران کی جانب سے یورینئیم کی افزودگی کی سطح میں کمی لانے پر ایران کے خلاف بین الاقوامی تعزیرات میں نرمی برتی جائے گی، جس کے بارے میں اِن خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تشکیل دینے کی جستجو کر رہا ہے۔
اسرائیل کے قومی سلامتی کے مطالعے سے متعلق ادارے سے وابستہ تجزیہ کار، افراہیم کام نے کہا ہے کہ ’سمجھوتے کے کچھ مثبت پہلو ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں اِس کے منفی پہلو کہیں زیادہ ہیں‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایران کا نیوکلیئر پروگرام کچھ وقت کے لیے رُکا ہے، اور اِسے کسی قدر پیچھے کی طرف دھکیلا گیا ہے۔ دوسری جانب، اس سمجھوتے میں متعدد جھول باقی ہیں، جو معاملہ سب کے لیے فکرمندی کا باعث ہونا چاہئیے‘۔
ناقدین کہتے ہیں کہ ‘اس سمجھوتے کی رو سے ایران کو کھلی چھٹی مل گئی ہے کہ وہ اپنی جوہری تنصیبات کو باقی رکھ سکے، جنھیں وہ فوری طور پر دوبارہ کارآمد بنا سکتا ہے، اگر وہ ایسا کرنا چاہے‘۔
اُن کے خیال میں، سمجھوتے میں ایران کے یورنیئیم کے افزودگی کے پروگرام میں مبینہ ہتھیار بنانے اور میزائیل تشکیل دینے سے متعلق معاملے پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی گئی، جو اِس صلاحیت کے حامل ہو سکتے ہیں کہ وہ ہزاروں کلومیٹر دور تک جوہری ہتھیار لے جا سکیں۔
پروفیسر ایلی کارمن اسرائیل کے ’انٹر ڈسپلنری سینٹر‘ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سجھوتے کی بدولت ایران کے جوہری پرگرام کو قانونی شکل مل گئی ہے؛ اور اُسے شام، عراق اور یمن کے تنازعات میں ملوث ہونے کی باضابطہ اجازت مل گئی ہے‘۔
بقول اُن کے، ’اِس قسم کی قانونی اجازت اور ایران کے جوہری عزائم کو دیا جانے والا ممکنہ سہارا، اُس کی جارحیت اور عزائم اور خطے میں موجودگی کے عنصر میں وسعت کا باعث بنے گا۔ لہاذا، یہ بات واضح ہے کہ اسرائیلی رہنما اپنے مستقبل کے بارےمیں بہت پریشان ہیں‘۔
اسرائیلی قائدین کا کہنا ہے کہ ایرانی جوہری خطرے سے نبردآزما ہونے کے لیے، اسرائیل کو کسی یکطرفہ کارروائی کا حق حاصل ہے، جس میں ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری بھی شامل ہے۔
تاہم، تجزیہ کار کارمن سمجھتے ہیں کہ ’اب فوجی آپشن کا امکان باقی نہیں رہا‘۔
بقول اُن کے، ’اِس منظرنامے میں کیا جانے والا سیاسی فیصلہ، جس پر تمام عالمی طاقتوں کی جانب سے ایک سمجھوتا سامنے آچکا ہے، اب فوجی کارروائی کا امکان مشکل تر ہو چکا ہے‘۔
کام نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ، ’اب اسرائیل کے لیے اقدام کرنے کی راہیں بہت کم رہ گئی ہیں‘۔
اُن کے الفاظ میں، ’اِس لیے، جو بات باقی رہ گئی ہے وہ یہ ہے کہ امریکی کانگریس اور دیگر دوستوں پر سفارتی زوربار دیا جائے، جو تعاون کے متمنی ہوں۔ اس مرحلے پر، کہنے دیجئیے، کہ کوئی قابل ذکر راہ باقی نہیں بچی‘۔
تاہم، تجزیہ کار کہتے ہیں جب اگلے تین ماہ کے دوران محض خدوخال پر رضامندی کے اس سمجھوتے پر مشترکہ اقدام کے فیصلہ پر اتفاق رائے کا مرحلہ سامنے آئے گا، اُس وقت ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین مذاکرات مشکل ترین معاملہ ہو سکتا ہے۔