امریکہ کے صدر براک اوباما نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے خدوخال پر اتفاق کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو سے کہا ہے کہ تہران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے باز رکھنے کے لیے یہ ایک اہم اور دیرپا پیش رفت ہے۔ لیکن نیتن یاہو نے اسے "اسرائیل کی بقا کے خطرہ " قرار دیا ہے۔
جمعرات کو ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں (برطانیہ، فرانس، امریکہ، چین، روس اور جرمنی) نے سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزین میں ایک ہفتے سے زائد سیر حاصل مذاکرات کے بعد ایک معاہدے کے خدوخال پر اتفاق کیا تھا جس کے تحت حتمی معاہدہ 30 جون کو طے پا سکے گا۔
صدر اوباما نے اسے ایک تاریخی موقع قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ کلی طور پر نافذالعمل ہو جاتا ہے تو اس سے دنیا مزید محفوظ ہو جائے گی۔
لیکن اوباما سے فون پر گفتگو میں اسرائیلی وزیراعظم نے اس کی "سخت ترین الفاظ میں مخالفت" کی۔
گفتگو کے بعد جاری ایک بیان میں نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ "اس معاہدے سے ایران کا جوہری پروگرام جائز قرار پائے گا، ایران کی اقتصادی ترقی ہو گی، پورے مشرق وسطیٰ اور اس سے بھی آگے تک ایران کی دہشت اور حارحیت میں اضافہ ہوگا۔"
ان کے بقول اس سے خطے میں جوہری پھیلاؤ اور خطرناک جنگ کے خطرات بڑھ جائیں گے۔
اسرائیل یہ کہتا آیا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے باز رکھنے کے لیے یکطرفہ کارروائی پر بھی غور کر سکتا ہے اور اس انتباہ سے ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے مراد لیے جاتے رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کے فریک ورک پر تبادلہ خیال کے لیے جمعہ کو اپنی سکیورٹی کابینہ کا اجلاس بھی طلب کر رکھا ہے۔
اس فریک ورک پر اتفاق کو بڑے پیمانے پر سراہا جا رہا ہے جب کہ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ اگر اس پر صدق دل سے عملدرآمد کیا گیا تو جوہری ہتھیار بنانے کی ایران کی "تمام راہیں" بند ہو جائیں گی۔
ان کے بقول اگر "ایران نے دھوکا دینے کی کوشش کی تو دنیا کو اس کا علم ہو جائے گا۔"
اس معاہدے کے نتیجے میں ایران کو امریکہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں سے نجات مل جائے گی۔
معاہدے کے خدوخال کے مطابق ایران اپنے سینٹری فیوجز میں دو تہائی تک کمی کرنے کے علاوہ ذخیرہ شدہ افژودہ یورینیئم کی مقدار کو بھی کم کرے گا۔ بین الاقوامی معائنہ کار ایران کی تمام جوہری تنصیبات کا باقاعدگی سے معائنہ کرتے رہیں گے۔
ایران یہ کہتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے لیکن اس موقف پر مغرب شکوک و شبہات کا اظہار کرتا رہا ہے۔
معاہدے کے خدوخال پر اتفاق کو تہران میں بھی خاصا سراہا گیا اور سینکڑوں افراد جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نقل آئے۔ انھوں نے قومی پرچم اٹھا رکھے تھے اور انھوں نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی ان کے ملک کی عالمی سطح پر تنہائی کا خاتمہ ہو سکے گا۔