پارلیمنٹ کو ایران سے ایٹمی معاہدے میں فریق بنانے کے لئے پیش کئے گئے دوطرفہ بل پر سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین، باب کروک کو اس ہفتے سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ متعدد ریپبلکنز سنیٹرز نے اس بل کی حمایت کو بعض ترامیم کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔
متوقع صدارتی امیدوار ریپبلکنز سنیٹر مارکو روبیو چاہتے ہیں کہ معاہدے سے قبل ایران اسرائیلی حکومت کو تسلیم کرے اور ایک دوسرے ریپبلیکن سینیٹر جان بیروس چاہتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ اس بات کی سند جاری کرے کہ ایران امریکہ کے خلاف برسرپیکار کسی بھی دہشت گرد تنظیم یا فرد کی حمایت نہیں کر رہا۔
اسی طرح ایک ترمیم کے تحت مطالبہ کیا گیا ہے کہ پہلے ایران زیر حراست تمام امریکی قیدیوں کو رہا کرے۔ اس طرح کی ترامیم کے بعد ہی ایران سے جون کے آخیر تک حتمی ایٹمی معاہدہ ہوسکے گا۔ تاہم، پارلیمنٹ کی منظوری کے لئے سینیٹ کی دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی۔
متعدد ریپبلکنز اور ڈیموکریٹ اراکین پارلیمنٹ ان ترامیم کو ’پوائزن پل‘ (زہریلی گولیاں) قرار دے رہے ہیں، جو دوطرفہ کروک بل کو پٹری سے اتار سکتی ہیں۔
سینیٹ کے فلور پر چیئرمین خارجہ کمیٹی کروک نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہے کہ اسے سینیٹ کی خارجہ کمٹیی سے بلا مشروط منظور ہونا چاہئے۔ اگر یہ بل منظور نہ ہوا تو سینیٹ ایران کے ساتھ ہونے والے انٹرنیشنل معاہدے پر اوباما انتظامیہ کو کچھ نہیں کہہ سکے گی۔
ڈیموکریٹک سینٹیر ٹم کین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سینیٹ دو طرفہ سوچ پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھے۔کانگریس کی یہ آئنی ذمہ داری ہے کہ وہ متوقع ایران معاہدے پر انتظامیہ کو بااختیار بنائے۔ سینیٹ میں اسی ہفتے کروک بل پر رائے شماری متوقع ہے۔ لیکن، یہ بات ابھی تک واضح نہیں آیا بل میں کتنی ترامیم آئیں گی۔
ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایک عبوری معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت معاشی بابندیاں ہٹانے کے عوض یورینیم کی انریچمنٹ کے لئے ایران کو بین الااقوامی نگرانی میں لایا اور اسے محدود کیا جاسکے گا۔
جون کے آخیر تک مذاکرات کے ذریعے حتمی معاہدہ متوقع ہے۔ اگر یہ معاہدہ ہوگیا تو یہ بل کی شکل میں کانگریس کو جائزہ کے لئے پیش کیا جائے گا اور اس جائزے کی تکمیل تک ایران پر پابندی اٹھانے کے صدارتی اختیارات منجمد رہیں گے۔