پاکستان میں وفاقی کابینہ نے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کو 'ایگزٹ کنٹرول لسٹ' (ای سی ایل) میں ترامیم کرنے کے اختیارات تفویض کرنے کی اجازت دی ہے۔
کابینہ کے مطابق یہ منظوری صرف عدلیہ کے احکامات پر عمل درآمد کے لیے دی گئی ہے۔ اس سے قبل اس کمیٹی کی سربراہی وزیرِ قانون کرتے تھے اور ان کے ساتھ مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر شامل تھے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ 'ایگزٹ کنٹرول لسٹ' (ای سی ایل) میں ترمیم کی حتمی منظوری کابینہ سے لی جائے گی۔
اس بارے میں قائم کردہ کابینہ کمیٹی وزیرِ داخلہ اور وزیر قانون پر مشتمل ہو گی جب کہ مشیر داخلہ و احتساب اور سیکریٹری داخلہ خصوصی دعوت پر اجلاس میں شریک ہوں گے۔
پاکستان میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ کس طرح کام کرتی ہے؟
ایگزٹ کنٹرول لسٹ بیرون ملک جانے کے خواہش مند ایسے افراد کو روکنے کے لیے تھی جن کا نام کسی مجرمانہ فعل کی وجہ سے یا کسی کیس میں ملوث ہونے کی بنا پر اس لسٹ میں آ جاتا تھا اور ان کے بیرون ملک فرار کا خدشہ ظاہر کیا جاتا تھا۔
ای سی ایل میں ان افراد کے نام شامل ہوتے ہیں جن کے بارے میں کسی عدالت، نیب یا خفیہ اداروں کی طرف سے ایف آئی اے امیگریشن کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
کسی شخص کا نام شامل کرنے کا اختیار ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے پاس ہوتا ہے لیکن یہ اختیار وزیرِ داخلہ بھی استعمال کر سکتا ہے۔
ای سی ایل پالیسی
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملک کی ای سی ایل پالیسی سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے دور میں بنائی گئی تھی۔
ان کے دور میں اس حوالے سے بعض شکایات سامنے آئیں جن میں گھریلو جھگڑے کی بنا پر بیوی نے شوہر کا نام یا کسی شخص نے اپنے عزیز کا نام صرف اعلیٰ حکام سے واقفیت کی بنیاد پر ای سی ایل میں شامل کروا دیا۔ کئی کئی برسوں تک یہ نام شامل رہے اور ان کو اس لسٹ سے نکالنے کا کوئی طریقۂ کار بھی موجود نہیں تھا۔
چوہدری نثار نے جب نئی پالیسی بنائی تو ایک ہفتے میں پانچ ہزار کے قریب لوگوں کے نام ای سی ایل سے نکال دیے گئے۔ حکام کا کہنا تھا کہ اس فہرست میں وہ نام بھی شامل تھے جن کا انتقال ہوئے کئی سال بیت گئے تھے۔
سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے ای سی ایل میں نام رکھنے کی مدت تین سال مقرر کی تھی اور اگر کسی شخص کے بارے میں مزید عدالتی احکامات موصول نہیں ہوتے تو اس شخص کا نام اس فہرست سے خارج ہو جاتا تھا۔
ای سی ایل سے نام نکالنے کے حوالے سے سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی جو ہر ماہ دو مرتبہ اجلاس منعقد کر کے ایسی آنے والی درخواستوں پر غور کرتی تھی۔
اگر کوئی عدالتی حکم موجود نہ ہو اور کسی کو علاج یا کسی مجبوری کے تحت بیرون ملک جانے کی ضرورت ہوتی تھی تو یہ اجازت دے دی جاتی تھی۔
ای سی ایل کی موجودگی میں اسٹاپ لسٹ اور بلیک لسٹ
ایگزٹ کنٹرول لسٹ ایف آئی اے کے رولز کے مطابق بنائی گئی ہے اور اس میں نام ڈالنے کا طریقہ کار بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کی درخواست پر دو مزید لسٹیں بھی کام کرتی ہیں جنہیں 'اسٹاپ لسٹ' اور 'بلیک لسٹ' کہا جاتا ہے۔
اسٹاپ لسٹ میں ان افراد کے نام شامل کیے جاتے ہیں جنہیں کسی جرم کی بنا پر فوری طور پر روکنا مطلوب ہوتا ہے۔ اس میں عموماً کسی قتل، منشیات یا دیگر اسی نوعیت کے مقدمات میں مطلوب افراد ہوتے ہیں۔
ان کے بارے میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے فوری طور پر ایف آئی اے کو آگاہ کرتے ہیں اور ایسے افراد کا نام اسٹاپ لسٹ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔
لیکن یہ نام صرف ایک ماہ کے لیے شامل ہوتے ہیں اور ایک ماہ کے بعد ای سی ایل میں نام نہ آنے کی بنا پر انہیں اس فہرست سے نکال دیا جاتا ہے۔
اسٹاپ لسٹ، بیرون ملک جانے والوں کو ہی نہیں بلکہ بیرون ملک سے آنے والے افراد کو بھی روک سکتی ہے اور کئی کیسز میں دیکھنے میں آیا ہے کہ نا پسندیدہ شخصیت ہونے کی بنا پر کسی شخص کو کارآمد ویزہ ہونے کے باوجود روک دیا جاتا ہے۔
دوسری فہرست بلیک لسٹ ہے اور اس میں زیادہ تر ریاست مخالف کام کرنے والے افراد کے نام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی درخواست پر شامل کیے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں وزارتِ داخلہ کے سیکریٹری کو متعلقہ محکمہ تحریری درخواست بھجواتا ہے جس کے ساتھ اس کی تمام شناختی معلومات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ بلیک لسٹ سے نام نکالنے کا اختیار بھی سیکریٹری داخلہ کے ہی پاس ہے۔
بلیک لسٹ میں شامل افراد کو عموماً ایئر پورٹ پر حراست میں لے لیا جاتا ہے اور متعلقہ محکمے کو آگاہ کرنے کے بعد ان کے حوالے کیا جاتا ہے۔
نئی ترمیم کیا ہیں؟
چوہدری نثار اور سابق وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ کے دور میں ای سی ایل کمیٹی بھی اس طرح فعال نہیں رہی اور اب بھی سیکڑوں افراد کی درخواستیں وزارتِ داخلہ کے پاس موجود ہیں۔
ای سی ایل سے نام نکلوانے والوں کی فہرست میں بعض سرکاری افسران کے نام بھی شامل ہیں جن کے نام کسی کرپشن یا سیاسی کیس کی بنیاد پر اس فہرست میں شامل کیے گئے۔
لیکن عدالتوں اور محکموں سے کلیئر ہونے کے باوجود ان کے نام نہیں نکالے جا سکے کیوں کہ ای سی ایل کمیٹی نے اس بارے میں زیادہ اختیارات وفاقی کابینہ کو دے دیے ہیں۔
کئی مرتبہ کئی کیسز میں معاملہ کابینہ کے ایجنڈے پر ہونے کے باوجود زیرِ بحث ہی نہیں آتا اور ان افراد کے نام اس فہرست میں شامل رہتے ہیں۔
موجودہ دور میں اس کمیٹی میں اعجاز شاہ کے دور میں وزیر داخلہ ای سی ایل کمیٹی کے ممبر نہیں تھے اور وزیرِ قانون فروغ نسیم مشیر داخلہ شہزاد اکبر کے ساتھ اس فہرست کو دیکھ رہے تھے۔
لیکن شیخ رشید کے وزیرِ داخلہ بننے کے بعد گزشتہ روز کابینہ نے اس میں ترمیم کر دی اور اب ایگزٹ کنٹرول لسٹ کمیٹی میں وزیرِ داخلہ اور وزیرِ قانون کسی شخص کا نام ڈالنے سے متعلق فیصلہ کریں گے۔
سینئر صحافی اعزاز شاہ کہتے ہیں کہ ماضی میں سیکریٹری داخلہ اس کمیٹی کی سربراہی کرتے تھے لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اسے تبدیل کرتے ہوئے مشیر داخلہ کو زیادہ با اختیار بنا دیا تھا۔
اعزاز سید کا کہنا ہے کہ بظاہر اس فیصلے کی وجہ یہ نظر آ رہی ہے کہ موجودہ حکومت وزیرِ داخلہ کو مزید مضبوط بنانا چاہتی ہے اور بیرونِ ملک جانے سے روکنے کے لیے وزیرِ داخلہ کے اختیار کو بڑھایا جارہا ہے۔
اُن کے بقول شیخ رشید احمد ایک مضبوط وزیر ہیں۔ لہٰذا ان کی وزارت کو مزید مضبوط بنایا جا رہا ہے۔