وزیراعظم عمران خان نے سابق وزیراعظم اور اپنے سیاسی حریف نواز شریف کی حالیہ تقریروں میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کا جواب ایک نجی ٹیلی وژن کے ساتھ انٹرویو میں دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ منتخب وزیراعظم ہیں اور کسی کی جرات نہیں کہ ان سے استعفی مانگ سکے۔
انہوں نے نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے دعوی کیا کہ سابق وزیراعظم باہر بیٹھ کر پاکستان کے اداروں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں اور ان کے بقول انہیں بھارت کی پشت پناہی انہیں ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر دو ٹوک انداز میں کہا وہ وہ حکومت چھوڑ سکتے ہیں لیکن کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔
سما ٹی وی کے میزبان ندیم ملک کے ساتھ انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان کی فوج جمہوری حکومت کے پیچھے کھڑی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم ہوتے اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ان سے استعفی مانگتے تو وہ اسے عہدے سے فارغ کر دیتے۔ اسی طرح اگر آرمی چیف ان سے پوچھے بغیر کارگل پر حملہ کر دیتا تو اسے بھی معزول کر دیتے۔
عمران خان کا اشارہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے گزشتہ روز کے اس بیان کی جانب تھا جس میں انہوں نے پارٹی کی مجلس عاملہ سے وڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیرالاسلام نے آدھی رات کو انہیں پیغام پہنچایا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں ورنہ ملک میں مارشل لا لگ سکتا ہے۔ لیکن اُنہوں نے استعفی دینے سے صاف انکار کر دیا۔
عمران خان نے الزام لگایا کہ نواز شریف کبھی بھی جمہوری نہیں رہے۔ انہیں جنرل جیلانی، ضیاء الحق کی سرپرستی حاصل رہی ہے، جب کہ اپنے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں واحد ڈیموکریٹ ہوں جو کسی فوجی نرسری میں نہیں پلا، بلکہ سیاسی اور جمہوری طریقے سے الیکشن جیت کر آیا ہوں۔
عمران خان نے ندیم ملک کے ساتھ گفتگو میں مزید کہا کہ نواز شریف ان کے بقول بہت خطرناک کھیل، کھیل رہا ہے۔ یہی الطاف حسین نے کھیلا تھا، بھارت، ان کے بقول نواز شریف کی مدد کر رہا ہے۔
’’میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ ان کے پیچھے 100 فیصد انڈیا ہے۔ کیونکہ پاکستان کی فوج کمزور کرنے میں ہمارے دشمنوں کی دلچسپی ہے‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی تھنک ٹینک کھلے عام کہتے ہیں کہ پاکستان کو توڑنا ہے۔ کچھ لوگ فوج کو کمزور کرنے کے لیے مہم چلاتے ہیں اور عمران خان کے الفاظ بائیں بازو کے کچھ نادان بھی اپنی ہی فوج کے خلاف بول رہے ہیں۔
اپوزیشن کے مجوزہ احتجاج کے سوال پر عمران خان نے کہا:
’’میں کسی پرچی پر وزیراعظم نہیں بنا۔ یہ جو چاہیں کر لیں۔ یہ باہر بیٹھ کر فوج اور عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کا مقصد دباؤ ڈال کر این آر او لینا ہے۔ پرویز مشرف نے اپنی طاقت بچانے کے لئے این آر او دیا۔ اگر مجھے کہا گیا کہ طاقت بچائیں یا این آر او دیں تو میں اقتدار چھوڑنے کو ترجیح دوں گا۔‘‘
اقتدار میں آنے کے بعد اثاثوں سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا
’’میرے تمام اثاثے ڈیکلیئرڈ ہیں۔ اگر ان میں اضافہ ہوا تو سب کو پتہ چل جائے گا۔ وزیراعظم بننے کے بعد میرے اثاثے کم ہوئے ہیں۔ والد سے لیا گیا پلاٹ بیچنا پڑا۔ میری کوئی بے نامی پراپرٹی ہے نہ ہی بیرون ملک جائیداد۔ تمام ٹیکس ریکارڈ پر موجود ہے ‘‘
واضح رہے کہ میاں نواز شریف نے اپنے تازہ خطاب میں یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ بنی گالہ اسٹیٹ کیسے بنی؟ اس کا بھی جواب ملنا چاہیے۔ اسی طرح اپوزیشن عمران خان کے خلاف پارٹی فنڈنگ کیس میں بھی سرعت اور شفافیت کا مطالبہ کرتی ہے۔ بقول مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کے پی ٹی آئی فنڈنگ کیس اوپن اینڈ شٹ کیس ہے۔
ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ امپائر کی انگلی کا مطلب فوج ہے۔ میرا اشارہ اللہ کی طرف تھا، میرا امپائر اللہ ہے۔
ادھر میاں نواز شریف نے پارٹی سے خطاب میں کہا کہ عمران خان دھرنے کے دوران جس امپائر کی بات کیا کرتے تھے، وہ کوئی اور نہیں آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیرالاسلام تھے۔
میڈیا کے حالات اور آزادی رائے پر قدغن سے متعلق ندیم ملک کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ جمہوریت کا مطلب صرف میڈیا نہیں، آزاد عدلیہ بھی ہے۔ ادارے اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں۔ میڈیا بھی اس کا حصہ ہے۔
عمران خان نے بتایا کہ نواز شریف کو واپس لانے کا پلان بنا لیا گیا ہے اور ان کے بقول ایک مجرم کو واپس لانے کے لیے کسی دو طرفہ معاہدے کی ضرورت نہیں۔
قبل ازیں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے پارٹی کی مجلس عاملہ سے لندن سے وڈیو لنک پر خطاب میں کہا کہ سلیکٹڈ نے ملک کو تباہ و برباد کر دیا۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کہاں گیا؟ ڈیڑھ کروڑ لوگ آج بے روزگار ہو گئے۔ آج یہ حالات ہیں کہ لوگ روٹی کھاتے ہیں تو سالن کے پیسے نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کٹھ پتلی ہیں اور ان کا مقابلہ عمران خان سے نہیں ان کو لانے والوں سے ہے۔