ایک ایسے وقت میں جب برما میں ضمنی انتخابات کے انعقاد کے بعد امریکہ اس مشرقی ایشیائی ملک پر عائد اقتصادی پابندیاں نرم کرنے کا ارادہ کر رہا ہے، برما کی نسلی اقلیتوں کی جانب سے یہ شکایات سامنے آئی ہیں کہ ان پر حکومتی مظالم بدستور جاری ہیں۔
برما کے مشرقی علاقوں میں مقیم کچین اور کیرن نسل سے تعلق رکھنے والی آبادی کے رہنماؤں نے مغربی اقوام پر زور دیا ہے کہ وہ عالمی برادری میں برما کی تنہائی ختم کرنے کے لیے کوئی اقدام کرنے کا فیصلہ دیکھ بھال کر کریں۔
برما کی مشرقی ریاست کچین کے لوگ اب بھی ملک کی فوجی جنتا کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں۔ مسلح جھڑپوں کے باعث علاقے کی 60 ہزار سے زائد آبادی اپنا گھر بار چھوڑ کر عارضی کیمپوں میں پناہ گزین ہے۔
دو بچوں کی ماں 33 سالہ ٹوون بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جنہیں اپنا گھر چھوڑ کر کیمپ میں پناہ لینا پڑی ہے۔ ٹو ون کہتی ہیں کہ وہ اور ان کے اہلِ خانہ اپنے گائوں پہ فوجیوں کے ممکنہ چھاپے سے اس حد تک خوف زدہ تھے کہ ان کی راتوں کی نیند بھی اڑگئی تھیں کہ نہ جانے کب فوجی آجائیں۔
برما کی نسلی اقلیتیں ایک زمانے سے ملک کے فوجی حکمرانوں پر جبر کرنے اور ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کے الزامات عائد کرتی آئی ہیں۔ حکومت خود پر عائد کیے جانے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا جواب دینے سے عموماً گریز کرتی ہے لیکن حال ہی میں اس نے جنگ بندی کے لیے کچین باغیوں کے ساتھ مذاکرات شروع کیے ہیں۔
'کیرن' قوم برما کے جنوب اور مشرق میں بسنے والی ایک اور ناراض اقلیت ہے جس نے چھ عشروں کی لڑائی کے بعد رواں برس جنوری میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کیا ہے۔
زویا فن ایک ایسی کیرن خاتون ہیں جو اسی تنازع کے دوران میں پناہ گزین کیمپوں میں پل کر جوان ہوئی ہیں۔زویا کے والد کیرن قوم کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم 'کیرن نیشنل یونین' کے جنرل سیکریٹری تھے جنہیں 2008ء میں تھائی لینڈ میں قتل کردیا گیا تھا۔ زویا کی والدہ بھی کیرن قوم کے مسلح دھڑے کی جنگجو رہی ہیں۔
زویا نے ان دنوں لندن میں سیاسی پناہ حاصل کر رکھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ برمی فوجیں ان کی قوم پر فضائی حملے کرتی تھیں اور ان پر جہازوں سے بم برسائے جاتے تھے۔ان کے بقول جب بھی کوئی بم گرتا تھا تو زمین لرز کر رہ جاتی تھی اور وہ موت کے خوف سے دہل جاتی تھیں۔
زویا اب 'برما کیمپین یو کے' سے منسلک ہیں جو برما کی نسلی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے عالمی برادری کو آگاہ کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کچین ریاست میں برمی فوج ماضی میں تین با رجنگ بندی کے معاہدے توڑ چکی ہے۔
ان کے بقول ریاست میں شہریوں پر فوج کے حملے اب بھی جاری ہیں، عورتوں کی عصمت دری کی جارہی ہے جب کہ مردوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔
برما کے سب سے بڑے شہر رنگون کی سڑکوں پر رواں ہفتے ضمنی انتخابات کا جشن منایا جاتا رہا ہے لیکن ملک کے دور داز مشرقی علاقوں کے جنگل اس جشن سے ناآشنا رہے۔
ضمنی انتخابات میں ملک کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کی 'نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی' نے 45 میں سے 43 نشستوں پہ کامیابی حاصل کی ہے جس کے بعد امکان ہے کہ مغربی ممالک برما کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کریں گے۔
ملک کے موجودہ صدر تھین سین کی حکومت کی جانب سے بتدریج اصلاحات کے نفاذ کے بعد امریکہ نے بھی رواں ہفتے برمی حکومت پر عائد معاشی اور سفری پابندیوں میں نرمی کردی تھی۔
امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ان کا ملک رنگون میں مکمل طور پر بااختیار سفیر تعینات کرنے کے لیے برمی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
لیکن زویا فن کہتی ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اس ضمن میں بہت سوچ سمجھ کے کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔
ان کے بقول یہ ضروری ہے کہ مغربی ممالک برما میں مزید مثبت اصلاحات کے نفاذ کی حوصلہ افزائی کے لیے اہم نوعیت کی بہت سی پابندیاں فی الحال برقرار رکھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر مغربی دنیا نے اس وقت تمام پابندیاں اٹھالیں تو یہ ایک غلطی ہوگی۔
برما کے کئی علاقوں میں تبدیلی کی لہریں محسوس کی جارہی ہیں اور عوام کو زیادہ حقوق اور سہولیات حاصل ہورہے ہیں۔ لیکن بڑے شہروں میں آنے والی ان تبدیلیوں سے ملک کے نواحی علاقوں میں بسنے والی اقلیتیں تاحال محروم ہیں اور ملک کی فوجی جنتا کے ساتھ مغرب کے بڑھتے ہوئے میل جول کے ثمرات کی منتظر ہیں۔