ملک کے خفیہ ادارے کی جانب سے طلب کیے جانے کے بعد، بنگلہ دیش میں سماجی میڈیا کے ایک نامور کارکن دو ہفتے سے روپوش ہیں۔ بقول اُن کے، انہیں ’’کچھ امور پر گفتگو کے لیے‘‘ طلب کیا گیا تھا، اور یہ کہ اُن کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔
پِناکی بھٹاچاریہ حکومت کے ناقد گردانے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا ہےکہ ڈھاکہ میں طالب علموں کے ہفتے بھر تک جاری رہنے والے احتجاج کے بعد، جس میں سڑکوں کی ٹریفک کو محفوظ بنانے کے اقدام کا مطالبہ کیا گیا تھا، اس کے بعد اشتعال انگیزی پھیلانے کے الزامات پر لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس دوران، اُنہیں فورسز انٹیلی جنس کے سربراہ ادارے کی جانب سے پیش ہونے کی ٹیلی فون کال موصول ہوئی۔
اکاون برس کے سرگرم کارکن، جن کے فیس بک پر 153000 ’فولووز‘ ہیں، نامعلوم مقام سے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’حکومت نواز لوگوں نے احتجاج کرنے والے طالب علموں پر دھاوا بول دیا۔ اُنہوں نے اُن صحافیوں پر بھی حملہ کیا جو احتجاجی مظاہروں کی کوریج پر مامور تھے۔ میرے خیال میں حکومت مجھ سے اس بات پر خفہ ہے کہ میرے فیس بک اور ٹوئٹر پوسٹوں میں، میں نے ریلی پر ہونے والے حملوں کا انکشاف کیا تھا اور حملہ آوروں کی سیاسی شناخت ظاہر کی تھی‘‘۔
بقول اُن کے، ’’یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ اُن کا تعلق ’ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فورسز انٹیلی جنس‘ سے ہے، کچھ لوگ میری تلاش میں میرے گھر اور دفتر پہنچے۔ مجھے یاد ہے کہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ سکیورٹی ایجنٹوں نے کئی لوگوں کو اٹھا لیا تھا، جن کا پھر کبھی کوئی سراغ نہ مل پایا۔ میں بہت خوفزدہ ہوں‘‘۔
پیشے کے اعتبار سے، بھٹاچاریہ ڈاکٹر ہیں اور اُن کا طب سے واسطہ ہے، آن لائن سرگرمیوں میں حصہ لینے پر اُنہیں خاصہ شہرہ حاصل ہے۔
ایک مدت سے وہ فیس بک اور ٹوئٹر استعمال کرتے رہے ہیں۔ اُن کے بلاگ کافی معروف ہیں، جن میں مبینہ بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر وہ شیخ حسینہ کی قیادت والی حکومت پر کھلی تنقید کرتے رہتے ہیں، جن میں لوگوں کو لاپتا کرنے اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا ذکر ہوتا ہے۔
ماضی قریب میں اُنہیں انٹرنیٹ پر ہلاک کیے جانے کی دھمکیاں ملتی رہی ہیں۔