بنگلہ دیش کی پولیس اس مہینے میں منشیات فروشوں کے خلاف مہم کے آغاز سے اب تک کم از کم 86 افراد کو ہلاک اور 7 ہزار کے لگ بھگ لوگوں کو حراست میں لے چکی ہے۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ نے مئی کے شروع میں منشیات کے خلاف مہم شروع کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ میتھامفیٹامائن نامی دوا کو، جسے ایشیا میں عموماً یاما کے نام سے جانا جاتا ہے، پھیلنے سے روکا جا سکے۔
سرکاری عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق یہ سالانہ تین ارب ڈالر کا کاروبار ہے۔
یہ ڈرگ میانمر کے شمال مشرقی علاقے میں تیار ہوتی ہے جسے بعد ازاں ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں اسمگل کر دیا جاتا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے میانمر کی روہنگیا کمیونٹی کے ایک بارہ سالہ لڑکے کو پکڑا ہے جو یابا کی 3350 گولیاں ڈھاکہ لایا تھا۔
بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ بودھ اکثریتی ملک میانمر سے اپنی جان بچا کر بڑی تعداد میں بنگلہ دیش میں داخل ہونے والے روہنگیا مسلمان اس نشے کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب کہ بہت سے روہنگیا کا کہنا ہے کہ ان کی کمیونٹی کے افراد کو زبردستی جرائم کی طرف دھکیلا جا رہا ہے کیونکہ وہ قانونی طور پر کام نہیں کر سکتے اور اکثر صورتوں میں انہیں امداد تک بھی رسائی نہیں دی جاتی۔
پولیس کی فوری ایکشن کرنے والی بٹالین کے سربراہ مفتی محمد خان نے کہا ہے کہ 86 افراد کی ہلاکتیں اس وقت ہوئیں جب منشیات کا کاروبار کرنے والوں نے سرکاری اہل کاروں سے لڑائی کی۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی منشیات کے خلاف مہم فلپائن کے نقش قدم پر چل رہی ہے جہاں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔
وزیر داخلہ اسد العاظم خان نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس ما ورائے عدالت قتل نہیں کر رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ درجنوں پولیس اہل کار انسداد منشیات کی کارروائیوں کے دوران زخمی ہو چکے ہیں ۔
حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے کہا ہے ان کی جماعت بھی منشیات کے خلاف مہم میں شامل تھی لیکن اگر حکمران جماعت کے ارکان منشیات سے منسلک جرائم میں ملوث پائے گے تو انہیں چھوڑا نہیں جائے گا۔