بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کو بد عنوانی کے الزام میں پانچ سال قید کی سزا سنائی ہے۔
72 سالہ خالدہ ضیاء کو یہ سزا جمعرات کے ورز دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک عدالت نے رشوت ستانی کے جرم میں سنائی۔ ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے سن 2001 اور 2006 کے دوران، جب وہ ملک کی وزیر اعظم تھیں، یتیموں کے لیے مختص ایک ٹرسٹ فنڈ میں ڈھائی لاکھ ڈالر کی خرد برد کی تھی۔
خالدہ ضیاء کے بیٹے طارق رحمن اور چار دوسرے افراد کو جج نے اس مقدمے میں ملوث ہونے کے جرم میں 10 سال کے لیے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔
خالدہ ضیاء کا بیٹا لندن میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہا ہے۔
اس سزا کے نتیجے میں، خالدہ ضیاء جو حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ بھی ہیں، دسمبر میں ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔
ان کے وکیل نے اسے سیاسی بنیاد پر کیا جانے والا فیصلہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
جمعرات کے روز ڈھاکہ کی سڑکیں اور گلیاں خالدہ ضیاء کے ہزاروں حامیوں سے بھر گئیں اور ان کے ہزاروں پرستار عدالت تک گاڑیوں کے قافلے میں ان کے ساتھ گئے۔
مقدمے کی سماعت کے موقع پر ڈھاکہ میں بھاری تعداد میں پولیس کے اہل کار تعینات کیے گئے تھے۔ پولیس نے ضیاء کے حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس بھی استعمال کی۔
بنگلہ دیش کا سیاسی منظر نامہ دو خواتین حریفوں خالدہ ضیاء اور شیخ حسینہ واجد کے درمیان تلخ اور تندو تیز بیانات اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سرگرمیوں کے واقعات سے اٹا ہوا ہے۔ سابق مقتول صدور کی یہ بیوائیں کئی عشروں سے ایک دوسرے کے بعد اقتدار میں آ رہی ہیں۔