افغانستان کے صوبہ غزنی میں کار بم دھماکے میں 30 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے جبکہ مشرقی صوبے زابل میں بم دھماکے میں صوبائی کونسل کے سربراہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق حکام نے اتوار کو غزنی میں ہونے والے کار بم حملے کی شدت اور متاثرہ مقام پر تباہی کے باعث مزید ہلاکتوں کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔
غزنی کے صوبائی اسپتال کے ڈائریکٹر باز محمد ہمت کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد 30 لاشیں اسپتال لائی گئیں۔ جب کہ 24 زخمیوں کو بھی اسپتال لایا جا چکا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام ہلاک شدگان اور زخمی افراد سیکیورٹی اہلکار ہیں۔
مقامی حکام کے مطابق دھماکے میں پبلک پروٹیکشن فورس کے اہلکاروں کے کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ فورس افغان سیکیورٹی فورسز کے ماتحت کام کرتی ہے۔
حکام کا مزید کہنا تھا کہ اس کمپاؤنڈ کے قریب رہائشی آبادی بھی ہے۔ دھماکے کی شدت کے باعث آبادی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس لیے ممکنہ طور پر دھماکے سے جانی نقصان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے دھماکہ کار بم ہونے کی تو تصدیق کی۔ البتہ انہوں نے اس دھماکے سے ہونے والے نقصانات کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔
دھماکے کی ذمہ داری بھی فوری طور پر کسی عسکری گروہ نہیں قبول نہیں کی۔
'رائٹرز' کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی رابطہ کرنے پر دھماکے کہ ذمہ داری قبول کرنے یا اس میں ملوث نہ ہونے کی تصدیق کرنے کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔
افغانستان میں حالیہ مہینوں میں کار بم حملوں اور دیگر پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب افغان حکام اور طالبان میں دوحہ میں بین الافغان مذاکرات بھی جاری ہیں۔ البتہ ان مذاکرات میں کسی قسم کی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔
افغانستان کے ایک اور صوبے زابل میں صوبائی کونسل کے سربراہ عطا جان حق بیان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ حکام نے اس بم حملے میں ایک شخص ہلاک جب کہ 23 زخمی ہونے کی تصدیق کی۔ حملے میں عطا جان حق بیان معمولی زخمی ہوئے۔
عطا جان حق بیان کو طالبان کا شدید مخالف سمجھا جاتا ہے۔ ان کے قافلے پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری بھی کسی گروہ نہیں قبول نہیں کی۔