امریکی محکمہ خارجہ کے ایک فیلو شپ پروگرام کے تحت گذشتہ دنوں پاکستان کے اردو میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے ایک گروپ نے امریکہ میں تین ہفتوں پر محیط ایک تربیتی کورس میں شرکت کی۔
پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے گیارہ صحافیوں پر مشتمل اس گروپ کے چار ارکان نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے پروگرام ہر دم رواں ہے زندگی میں اپنے تربیتی دورے کی افادیت اور اپنے منفرد تجربات کے بارے میں گفتگو کی۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے عروج نیوز پشتو اور فرائیڈے ٹائمز اور ایکسپریس نیو ز کے صحافی داؤد خان نے ا س پروگرام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تین ہفتوں کے اس کورس کے دوران وہ سب سے پہلے شکاگو گئے جس کے بعد انہوں نے اوکلا ہوما کا دورہ کیا اور وہاں انہوں نے صحافت کے شعبے میں تعلیم کے انداز کا جائزہ لیا ، مختلف مقامی میڈیا چینلز میں جا کر امریکی صحافتی زندگی کا براہ راست مشاہد ہ کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سینٹ لوئیس میسوری میں واشنگٹن یونیورسٹی کا دورہ کیا۔ انہیں وہاں کے مدارس ،مساجد ، کلیساؤں اور سینگاگز کے مشاہدے کا موقع ملا اور انہوں نے امریکہ میں موجود مذہبی ہم آہنگی کا براہ راست مشاہدہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پروگرام نے انہیں امریکی ثقافت کے مختلف رنگوں کے براہ راست مشاہدے کا بھی موقع فراہم کیا۔
ریڈیو پاکستان اور دوسرے مختلف چینلز کےساتھ وابستہ صحافی، قرتہ العین حیدر نےبھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہا کہ اس پروگرام نے انہیں امریکی زندگی کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کیا اور انہیں معلوم ہوا کہ امریکہ کس طرح مختلف شعبوں میں جدت اختیار کر رہا ہے چاہے وہ ریڈیو ہے ، اخبارات ہیں ٹیلی وژن ہے یا کوئی اور بھی شعبہ۔
ایکسپریس نیوز لاہور کی رن ڈاؤن پروڈیوسر ثنا آصف نے کہا کہ انہیں امریکہ کے ان لوگوں سے ملنے کا موقع ملا جن کی رائے کی اہمیت ہے ۔ انہوں نے تعلیمی ماہرین , سیاستدانوں اور نامور صحافیوں سے ملاقات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہاں صحافت کی آزادی بہت پسند آئی لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہوا اگرچہ امریکی میڈیا کے لوگوں کو بہت آزادی حاصل ہے لیکن ڈیجیٹل ٹکنالوجی کے اس دور میں انہیں بھی اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہے جس سے اس وقت پاکستانی صحافی گزر رہے ہیں ، مثلاً اخباروں کی سرکولیشن اور اشتہارات کم ہوئے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا کے کمر شلز میں کمی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا یہ دورہ انہیں بہت کچھ سکھا گیا اور بہت کچھ بتا گیا۔
کراچی نیو ٹی وی کی رپورٹر سدرہ اظہر نے کہا کہ انہیں امریکی صحافت کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ یہاں ہر صحافی اپنی پروفیشنل زندگی میں کئی مہارتوں کا حامل ہوتا ۔وہ خبر کے لیے فیلڈ میں جانے سے لے کر خبر کی اسکرپٹنگ ، ایڈٹنگ ، پروڈکشن اور اسے پیش کرنے تک کے فرائض ادا کرتا ہے، جب کہ پاکستان میں ان میں سے ہر کام کے لیے عمومی طور پر مختلف مہارتوں کے لوگ ہوتے ہیں۔
پاکستان سے آنے والے ان صحافیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صحافت ایک بزنس بن چکی ہے لیکن یہاں امریکہ میں صحافت واضح طور پر لوگوں کے لیے خبروں کی ترسیل پر مرکوز ہے۔ ا ور یہاں ذمہ دارانہ طریقے سے اور درست خبریں پہنچانے پر زور دیا جاتا ہے اور بریکنگ نیوز کے لیے عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا ۔ جبکہ پاکستان میں بریکنگ نیوز کا کلچر بہت زور پکڑ چکا ہے جس کی وجہ سے کئی بار اصل خبر نظر انداز ہو جاتی ہے اور غیر اہم خبریں ان کی جگہ لے لیتی ہیں۔ خبر کو سب سے پہلے نشر کرنے کے اس رجحان کی وجہ سے غلط خبریں بھی نشر ہو جاتی ہے، جو سننے والوں کے لیے بھی نقصان دہ ہوتی ہیں اور اداروں کی ساکھ کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان واپس جا کر بریکنگ نیوز اور سنسنی پھیلانے کے کلچر کو ختم کرنے کی کوشش کریں گی اور اپنی صحافت کو ذمہ دارانہ اور مستند بنانے کی کوشش کریں گے۔
امریکی سسٹمز کے بارے میں بات کرتے ہوئے صحافیوں کا کہنا تھا کہ انہیں امریکہ کا میٹرو سسٹم بہت اچھا لگا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بہت اچھی لگی کہ یہاں ایمبولینس کو راستہ مانگنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ انہوں نے امریکہ کی ٹریفک، گاڑیوں کا لین میں چلنا اور یہاں کت پارکنگ سسٹم کو بھی سراہا۔
پاکستانی صحافیوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس پروگرام کے ذریعے امریکی لوگوں اور امریکی زندگی کے بارے میں بہت سے اسٹیریو ٹائپس یا غلط فہمیاں دور کرنے کا موقع ملا ۔جب کہ انہوں نے امریکی میڈیا کے لوگوں کو پاکستانی میڈیا کے بارے میں بھی معلومات فراہم کیں۔
محمد داؤدکا کہنا تھا کہ امریکی صحافت میں ہی نہیں امریکی زندگی میں بھی وقت کی پابندی ، خوش اخلاقی اور رواداری کا عنصر قابل تعریف ہے اور یہ کہ یہاں کے ادارے بہت مضبوط اور خود مختار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان واپس جا کر اپنے اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے پرنٹ اور نشریاتی چینلز کو استعمال کریں گے اور لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں مزید آگاہ کرنے کی کوشش کریں گے۔