افغانستان کے شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والا 11 رکنی وفد ان دنوں پاکستان کے دورے پر جہاں وہ مختلف سیاسی و سماجی شخصیات اور پاکستانی صحافیوں سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔
اس وفد نے اپنے دورے کا آغاز پشاور سے کیا اور یہاں تین روزہ قیام کے دوران انھوں نے صوبائی اسمبلی کی کارروائی کا جائزہ لینے کے علاوہ قانون سازوں سے بھی ملاقاتیں کی۔
مہمان صحافیوں کو کہنا تھا کہ اس طرح کے تبادلہ پروگرام دونوں ملکوں کے مابین پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کر کے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں خاصے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
وفد میں شامل اسد داؤدزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس دورے کو خاصا حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے کہا کہ مختلف لوگوں سے بات چیت میں انھیں مشترکہ مسائل اور ان کے حل پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا۔
ان کا کہنا تھا کہ رائے عامہ ہموار کرنے میں ذرائع ابلاغ کا بڑا اہم کردار ہے جسے مثبت انداز میں ادا کر دونوں کے ملکوں کے درمیان امن و دوستی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
"حکومتیں یا ریاستیں عوامی رائے کو تو پس پشت نہیں ڈال سکتے اور رائے عامہ بنانے میں میڈیا کا بڑا کردار ہے۔ لوگ تو محبت اور امن و دوستی چاہتے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان میں بھی میڈیا کے کچھ حصے ایسے ہیں جن کا اثرو رسوخ ہے، تو اگر میڈیا عوامی جذبات کی صحیح ترجمانی کرے تو ایک وقت آئے گا کہ ریاستیں بھی امن اور دوستی کی بات کریں گے۔"
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں ماضی کی نسبت بہتری دیکھنے میں آ رہی تھی لیکن حالیہ مہینوں میں افغان رہنماؤں کی طرف سے اپنے ہاں دہشت گرد کارروائیوں کا الزام ایک بار پھر پاکستان پر عائد کیا گیا جب کہ بعض علاقوں میں پاکستان مخالف مظاہرے بھی دیکھنے میں آچکے ہیں۔
اسد داؤدزئی کہتے ہیں کہ پاکستان مخالف جذبات کا تاریخی پس منظر ضرور ہے لیکن اسے ہوا دینے میں بھی میڈیا میں موجود کچھ لوگ کردار ادا کرتے ہیں جو کہ درست رویہ نہیں ہے۔
"میڈیا میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں پاکستان کے خلاف بات کر کے وہ خود کو قوم پرست ثابت کر لیں گے اور اسی طرح پاکستان میں بھی جب افغانستان کی بات ہوتی ہے تو اس میں بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے اپنے تعلقات ہیں ہمیں اس طرح سے چیزوں کو دیکھنا چاہیے۔"
اسلام آباد کابل کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا رہا ہے کہ ایک پرامن افغانستان خود اس کے مفاد میں ہے اور وہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے اپنی حمایت اور تعاون جاری رکھے گا۔
اس دورے کا اہتمام پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور ایک غیر سرکاری تنظیم ایکوئیل ایکسس نے کیا تھا جو کہ اس نوعیت کا چوتھا تبادلہ پروگرام تھا۔