رسائی کے لنکس

ٹرمپ مودی ملاقات: دونوں ملک ایک دوسرے کو کیا مراعات دے سکتے ہیں؟


  • اسٹریٹجک معاملات پر امریکہ اور بھارت دونوں کو چین کی طرف سے اقتصادی اور سلامتی کے شعبوں میں چیلنجز درپیش ہیں۔
  • وائٹ ہاؤس نے کہا کہ بھارت نے درآمدات پر بہت زیادہ محصول عائد کر رکھے ہیں جو امریکہ سے مزید برآمدات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
  • میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ اور بھارت کو بہت غور و فکر کے ساتھ تجارتی ٹیرف کے معاملے سے باہمی طور پر نمٹنا ہوگا۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس بارے میں کوئی بہت بڑا اعلان متوقع ہے۔ تجزیہ کار
  • نئے امریکی ٹیرف کے بھارتی برآمدات پر بہت اثرات ہو سکتے ہیں کیونکہ بھارت یہ مصنوعات برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں شامل ہے۔

امریکہ اور بھارت کے رہنما اس ہفتے واشنگٹن میں کئی اہم امور پر بات کریں گے جن کے بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتےہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں امریکہ اول کی پالیسی پر پیرا عمل ہوتے ہوئے تجارت کو امریکہ کے بین الاقوامی تعلقات میں مرکزی حیثیت دی ہے جبکہ بھارت کے وزیر اعظم نر یندر مودی کی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ نئی دہلی درآمدات پر ٹیرف کے معاملے پر واشنگٹن کے خدشات کو کسی حد تک کم کرنے کے لیے تیار ہے۔

دوسری طرف اسٹریٹجک معاملات پر امریکہ اور بھارت دونوں کو چین کی طرف سے اقتصادی اور سلامتی کے شعبوں میں چیلنج درپیش ہیں جبکہ صدر ٹرمپ نے سابق امریکی خارجہ پالیسی کے مقابلے میں بعض معاملات پر نیا موقف اختیار کیا ہے جس میں امریکہ کا اسرائیل اور حماس جنگ کے خاتمے پر غزہ کی تعمیر نو کرنے اور وہاں سے فلسطینیوں کی منتقلی کا منصوبہ بھی شامل ہے۔

اس تناظر میں ماہرین کے مطابق ٹرمپ اور مودی کی ملاقات مزید اہمیت اختیار کر گئی ہے۔

مودی کے دورے سے قبل وائٹ ہاؤس نے کہا کہ بھارت نے درآمدات پر بہت زیادہ ٹیرف عائد کر رکھے ہیں جن کے باعث امریکہ سے مزید برآمدات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

صدر ٹرمپ کے اعلی ترین مشیر برائے اقتصادی امور کیون ہیسیٹ نے کہا کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ اسے دوسرے ملکوں کی طرف سے اپنی درامدات پر عائد محصولات کےمساوی تجارتی ٹیرف لگانے چاہیں اور اگر دوسرے ملک ان محصولات کو کم کر دیں تو امریکہ بھی اپنے محصولات میں اتنی ہی کمی لائے گا۔

اس تناظر میں بات کرتے ہوئے واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک فیلو اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ اگرچہ دوطرفہ تجارت میں ٹیرف کا معاملہ ایک ترجیحی مسئلہ ہےتاہم واشنگٹن اور نئی دہلی کے لیے یک دم بڑے اقدامات اٹھانا دشوار لگتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان تجارتی محصولات پر تقریباً ایک دہائی سے بات ہورہی ہے۔ امریکہ نے جو اب تک کے محصولات لگائے ہیں وہ مخصوص مصنوعات پر عائد ہوئے ہیں۔

"میں سمجھتا ہوں کہ بھارت اگر درآمدی ڈیوٹی کم کرتا ہے تو وہ مخصوص اشیا پر ہی کرے گا کیونکہ اگر عمومی طور پر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے لیے ڈیوٹی یا محصولات پر چھوٹ دیتا ہے تو اسے دوسرے ملکوں کو بھی یہ مراعات دینی پڑتی ہے۔"

ڈاکٹر زبیر اقبال نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر تمام ملکوں کے ساتھ تجارت میں یکساں ٹیرف عائد نہ کیے جائیں تو یہ عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او کے طے کردہ ضوابط کی خلاف ورزی ہوگی اور ایسے اقدام کو امتیازی قرار دیا جا سکتا ہے۔

"لہذا میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ اور بھارت کو بہت غور و فکر کے ساتھ تجارتی ٹیرف کے معاملے سے باہمی طور پر نمٹنا ہوگا۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس بارے میں کوئی بہت بڑا اعلان متوقع ہے۔"

صدر ٹرمپ نے اتوار کو کہاہے کہ وہ امریکہ میں درآمد کی جانے والی تمام اسٹیل اور ایلومینیم کی اشیا پر اضافی 25 فیصد محصولات کا اعلان کرنے کا ارادہ رکھتےہیں ۔

رائٹرز کے مطابق ان اضافی محصولات کے نتیجے میں بھارت سے اسٹیل اور ایلومینیم کی مصنوعات کی برآمد ات پر اثرات مرتب ہوں گے۔ "

"فیڈریشن آف انڈیین منرل انڈسٹریز" کے سیکرٹری جنرل بی کے بھاٹیا نے کہا کہ نئے امریکی مھصولات کے بھارتی برآمدات پر گہرے اثرات ہو سکتے کیونکہ بھارت یہ مصنوعات برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں شامل ہے۔

صدرٹرمپ کے اقتصادی امور کے مشیر کیون ہیسیٹ کہتے ہیں کہ سابق جو بائیڈن انتظامیہ نے دوسرے ملکوں کو ٹیرف کے معاملے پر بہت چھوٹ دی تھی اور اب وائٹ ہاؤس کا ارادہ ہے کہ دیے گئے استثنی کو مناسب وقت پر روک دیا جائے۔

بھارتی عہدیداروں نے رائٹرز کے مطابق کہا ہے کہ بھارت امریکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے الیکٹرانکس سے لے کر طبی آلات اور کیمیکلز تک کم از کم ایک درجن شعبوں میں ٹیرف میں کمی پر غور کر رہا ہے۔

اس کے علاوہ بھارت تجارتی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے امریکہ سے توانائی کی مصنوعات کی درآمدات میں اضافے کی تجویز کا بھی منصوبہ رکھتا ہے۔

لیکن، ڈاکٹر زبیر اقبال کے مطابق بھارت کا امریکہ سے توانائی کی مصنوعات کی درآمد میں اضافے کا مطلب روس یا ایران سے برآمدات میں کمی کرنا ہوگا جو کہ بجائے خود ایک بڑا نازک اسٹریٹجک مسئلہ ہے۔

جہاں تک چین سے مسابقت کا تعلق ہے تو ڈکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ ٹرمپ اور مودی کی ملاقات میں یہ سب سے اہم موضوع ہو سکتا ہے۔

"میرے خیال میں سب سے اہم سوال یہ ہو گا کہ بھارت کس حد تک امریکہ کے ساتھ چین مخالف اتحاد میں اپنے عزم کا اظہار کرتا ہے اور یہ کہ واشنگٹن اور نئی دہلی کس حد تک ایک دوسرے کی چین کے مقابلے میں حمایت کریں گے۔ اس وقت یہ شاید تجارت سے بھی زیادہ اہم معاملہ ہوگا۔"

غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کی واپسی کا معاملہ

ماہرین کے خیال یں تجارت کے علاوہ دوسرے اہم امور میں امریکہ سے غیرقانونی طور پر امریکہ میں رہنے والے بھارتی شہریوں کی بے دخلی، چین سے مقابلے کرنے والے گروپ کواڈ کو موثر بنانا, دفاع کے شعبے میں تعاون اور امریکہ اور بھارت کے عالمی امور پر موقف میں ہم آہنگی شامل ہوں گے۔

حال ہی میں امریکہ سے ملک بغیر دستاویز کے رہنے والے بھارتی شہریوں کی واپسی کے حوالے سے بھارت کی امریکہ میں سابق سفیر میرا شنکر کہتی ہیں کہ ان جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے بھارت اور امریکہ کو مضبوط بنیادوں پر ایک ایسی شراکت داری استوار کرنے کی ضرورت ہے جس س میں تعاون اور حقیقی عملیت پسندی کے درمیان توازن حاصل ہو۔

نشریاتی ادارے سی این بی سی ٹی وی 18 سے بات کرتے ہوئے میرا شنکر نے کہا کہ بھارت سے آنے والےغیر قانونی تارکین وطن شہریوں کی واپسی جیسے پیچیدہ موضوعات پر تعمیری انداز میں مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ بغیر دستاویز کات کے بغیر افراد کوفوجی طیاروں کے بجائے ماضی کی طرح زیادہ خاموش طریقے سے بھیجنا ایک ترجیحی عمل ہے ۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر زبیر کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ یہ بھی چاہیں گے کہ وزیر اعظم مودی ان کی غزہ کی تعمیر نو سمیت مشرق وسطی کے معاملات پر کھل کر حمایت کا اظہار کریں۔

فورم

XS
SM
MD
LG