|
نئی دہلی -- غیر قانونی بھارتی تارکینِ وطن کو امریکی فوجی طیارے پر واپس بھیجنے اور بعض افراد کو مبینہ طور پر ہتھکڑی لگانے پر بھارت میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پارلیمان کے اندر اور باہر شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔
بدھ کو امریکہ نے ایک سو سے زائد غیر قانونی بھارتی تارکینِ وطن کے پہلے گروپ کو ایک فوجی طیارے سے بھارت واپس بھیج دیا تھا۔ طیارے نے بدھ کو امرتسر کے شری گرو رام داس جی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر لینڈ کیا تھا۔
نئی دہلی میں حزبِ اختلاف کے متعدد ارکانِ پارلیمان نے جن میں ملک ارجن کھڑگے، راہل گاندھی، پرینکا گاندھی، اکھلیش یادو وغیرہ شامل تھے، غیر قانونی تارکینِ وطن کو فوجی طیارے میں لانے پر جمعرات کو پارلیمان کے اندر اور باہر شدید احتجاج کیا۔
اس موقع پر بعض اپوزیشن رہنماؤں نے اپنے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال رکھی تھی۔
واپس آنے والے متعدد افراد نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ انہیں ہاتھوں میں ہتھکڑی اور پیروں میں بیڑی ڈال کر لایا گیا۔ اپوزیشن نے اس معاملے پر حکومت کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔
صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کا عزم کیا تھا اور انہوں نے اپنی دوسری مدت صدارت کا آغاز ایسے احکامات کے ساتھ کیا ہےجن کا مقصد امریکہ میں داخلے کے نظام کی اصلاح کرنا ہے ۔
اپنے دفتر میں پہلے دن، ٹرمپ نے جنوبی سرحد پر "قومی ایمرجنسی " کا اعلان کرنے کے احکامات پر دستخط کیے تھے اور "غیر ملکی مجرموں" کو ملک بدر کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے علاقے میں مزید فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کیاتھا۔
دہلی میں امریکی سفارت خانے کا ردِعمل
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق دہلی میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ امیگریشن قوانین کو نافذ کرنا امریکہ کی سلامتی اور عوامی تحفظ کے لیے 'انتہائی اہم' تھا۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ "یہ امریکہ کی پالیسی ہے کہ وہ تمام ناقابلِ قبول اور نکالے جانے والے افراد سے متعلق امیگریشن قوانین کو پوری طرح نافذ کرے۔"
'یہ امریکہ کا ایس او پی ہے'
وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے پابندیوں کو امریکہ کا ’اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر‘ (ایس او پی) بتایا۔
تاہم انہوں نے راجیہ سبھا میں حزبِ اختلاف کو یقین دلایا کہ بھارت ٹرمپ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہہ رہا ہے کہ واپس بھیجنے والوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے۔
انہوں نے مردوں کو ہتھکڑیاں لگانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق امریکہ کے ’امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ‘(ای سی آئی) نے اطلاع دی ہے خو اتین اور بچوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔
ان کے بقول 10 گھنٹے کی فلائٹ میں تارکینِ وطن کو کھانا اور دوائیں دی گئیں۔ہمیں قانونی طریقے سے ہجرت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ملک بدری کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایوان کو سمجھنا چاہیے کہ ہماری توجہ غیر قانونی مائیگریشن انڈسٹری کے خلاف سخت کریک ڈاؤن پر ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی جائز مسافروں کے لیے ویزوں کی سہولت کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔
ٹرمپ حکومت سے بات کرنے کے مطالبات
قبل ازیں حزبِ اختلاف نے اس معاملے پر پارلیمان میں بحث کا مطالبہ کیا اور تارکینِ وطن کو مبینہ غیر انسانی انداز میں لانے پر احتجاج کیا۔ اس نے حکومت سے بیان دینے کا مطالبہ بھی کیا۔
متعدد کانگریسی ارکان نے تحریک التوا پیش کی جس میں حکومت سے اپیل کی گئی کہ وہ اس معاملے کو ٹرمپ حکومت کے سامنے اٹھائے۔
قبل ازیں خارجہ امور سے متعلق پارلیمان کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے پیر کو پارلیمان میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں وزارتِ خارجہ کے اس بیان کا حوالہ دیا گیا کہ حکومت بیرونِ ملک روزگار کے لیے محفوظ، منظم اور باقاعدہ ہجرت کو فروغ دینے کے لیے ایک نیا قانون وضع کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔
'بہتر ہوتا انہیں کمرشل پروازوں سے بھیجا جاتا'
پارلیمان کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سربراہ سینئر کانگریس رہنما ششی تھرور نے تارکینِ وطن کو فوجی طیارے سے واپس بھیجنے کے خلاف احتجاج کیا۔
انہوں نے اخبار 'انڈین ایکسپریس' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو یہ پورا حق ہے کہ وہ غیر قانونی تارکینِ وطن کو واپس بھیجے۔ لیکن بہتر ہوتا کہ ان کو ریگولر کمرشل فلائٹ سے یا پھر بہت ضروری تھا تو سویلین چارٹرڈ فلائٹ سے بھیجا جاتا۔
واپس آنے والے تارکینِ وطن میں سے متعدد افراد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہیں ہاتھوں میں ہتھکڑی اور پیروں میں زنجیر باندھ کر لایا گیا جس کی وجہ سے انہیں ٹوائلٹ وغیرہ جانے میں بڑی دشواری پیش آئی۔ ان کے مطابق امرتسر ایئرپورٹ پر طیارے کی لینڈنگ کے بعد ہی ہتھکڑیاں کھولی گئیں۔
ششی تھرور نے ہتھکڑی لگانے پر بھی احتجاج کیا۔ ان کے مطابق توقع ہے کہ ہماری حکومت امریکہ سے کہے گی۔ ان کو فوجی طیارے میں اور ہتھکڑیوں میں واپس بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
'اُمید ہے وزیرِ اعظم مودی دورے کے دوران اس پر بات کریں گے'
بعض تجزیہ کاروں اور صحافیوں نے بھی اس سلوک پر اعتراض کیا اور توقع ظاہر کی کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی جب اگلے ہفتے امریکہ کا دورہ کریں گے تو وہ اس معاملے کو ضرور اٹھائیں گے۔
عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ دراصل نریندر مودی کا دورہ دو طرفہ تعلقات بالخصوص دفاعی شعبے میں تعاو ن کے فروغ کے سلسلے میں ہو رہا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ صدر ٹرمپ سے مذاکرات میں اس معاملے کو اٹھائیں لیکن وہ ٹھوس انداز میں اس کو نہیں اٹھا سکتے۔
ان کے بقول کوئی بھی ملک دوسرے ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے اپنے شہریوں کو واپس لینے سے انکار نہیں کر سکتا۔ اس معاملے میں ہر ملک کو عالمی قوانین کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت دوسرے ملکوں میں غیر قانونی طور پر رہ رہے اپنے شہریوں کو واپس لینے کے لیے تیار ہے۔
تجزیہ کار پربھات مشرا کے مطابق جو لوگ فراڈ کرکے دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہیں یا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں انہیں واپس کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول غیر قانونی تارکین وطن کو بھارت بھیجنے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں بھی متعدد بھارتی تارکینِ وطن کو چارٹرڈ طیارے سے واپس بھیجا گیا تھا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ بھارت اور امریکہ نے قانونی ہجرت کی راہ ہموار کرنے اور غیر قانونی تارکینِ وطن کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات چیت کی ہے۔
ان کے مطابق حکومت اپنے غیر دستاویزی شہریوں کی شناخت اور وطن واپسی کے سلسلے میں امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔
اسد مرزا کا کہنا ہے کہ اگر ان کو ہتھکڑیوں میں لایا گیا ہے تو یہ یقینی طور پر غیر انسانی معاملہ ہے۔ وہ کوئی مجرم نہیں تھے۔ ہاں انہوں نے قوانین کی خلاف ورزی کی تھی جس کی وہ سزا بھگت رہے ہیں۔
ان کے بقول اس معاملے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
قبل ازیں امرتسر ایئرپورٹ پر طیارے کی لینڈنگ کے بعد تارکینِ وطن سے متعلق پنجاب کے وزیر کلدیپ سنگھ دھالیوال نے میڈیا کو بتایا کہ 104 غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجا گیا ہے۔
پنجاب پولیس کے مطابق واپس آنے والوں میں ہریانہ اور گجرات کے 33-33، پنجاب کے 30، مہاراشٹر کے تین اور اترپردیش اور چنڈی گڑھ کے دو ,دو افراد تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان میں 25 خواتین اور ایک چار سالہ بچے سمیت 12 کم عمر تھے۔ جب کہ 48 افراد کی عمریں 25 سال سے کم ہیں۔
ریاستی حکام نے بتایا کہ ان تمام لوگوں کے کاغذات کی چھان بین کے بعد ان کو چھوٹے چھوٹے گروپس میں ان کے آبائی گھروں کو بھیج دیا گیا۔
واپس آنے والوں میں سے متعدد نے بتایا کہ وہ ایجنٹوں کے ہاتھوں ٹھگے گئے ہیں۔ ان لوگوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں قانونی طریقے سے امریکہ بھیجا جائے گا لیکن راستے میں معلوم ہوا کہ انہیں غیر قانونی انداز میں بھیجا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے امریکہ جانے کے لیے ایجنٹوں کو بھاری رقوم ادا کی تھیں۔ انھوں نے امریکہ میں داخل ہونے سے قبل اور بعد پیش آنے والی صعوبتوں کی تفصیلات بھی بتائیں۔
فورم