رسائی کے لنکس

بھارت-امریکہ تجارت میں حالیہ اضافہ؛ مودی کے دورۂ واشنگٹن سے مزید اُمیدیں وابستہ


  • ماہرین کے مطابق امریکہ کو بھارت کی بڑی برآمدات میں انجینئرنگ اور الیکٹرانک کے سامان، جواہرات و زیورات اور دوا سازی کی مصنوعات وغیرہ شامل ہیں۔
  • ماہرین کے مطابق کرونا وبا کے بعد کے دور میں امریکہ کو بھارتی برآمدات میں اضافہ ہوا اور باہمی تجارت جلد ہی معمول پر آگئی۔
  • بھارت میں امریکہ سے ٹیکنالوجی کی درآمدات میں حالیہ برسوں میں کافی اضافہ ہوا ہے: تجزیہ کار ڈاکٹر امیر اللہ خان

نئی دہلی -- بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی حجم میں حالیہ عرصے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حکام پراُمید ہیں کہ امریکہ میں نئی حکومت آنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تجارت مزید فروغ پائے گی۔

بھارت کی وزارت تجارت کے مطابق اکتوبر 2024 تک امریکہ کو بھارت کی برآمدات لگ بھگ 33 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں جو کہ اکتوبر 2015 میں21 ارب 60 کروڑ ڈالر تھیں۔

بھارت کے کامرس سیکریٹری سنیل بھاردواج نے گزشتہ سال نومبر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی روابط کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔

ان کے بقول وہاں جو بھی حکومت رہی ہو امریکہ کے ساتھ بھارت کا اقتصادی تعاون بڑھا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔

ان کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان ’انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک فار پراسپیریٹی‘ (آئی پی ای ایف) سمیت دیگر دو طرفہ معاہدوں کے توسط سے باہمی تجارتی تعلقات بہت مضبوط ہوئے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ کے ساتھ بھارت کی تجارت سرپلس یعنی منافع میں ہے جب کہ چین کے ساتھ خسارے میں ہے۔

'بھارت کو فائدہ ہوا ہے'

اقتصادی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر امیر اللہ خان کہتے ہیں کہ امریکہ واحد ملک ہے جس سے بھارت کی تجارت سرپلس میں ہے۔ یعنی بھارت امریکہ کو برآمد زیادہ کرتا ہے اور وہاں سے درآمد کم کرتا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی یہی صورت حال ہے۔ جب کہ دیگر ملکوں اور بالخصوص چین کے ساتھ بہت زیادہ تجارتی خسارہ ہے۔

ماہرین کے مطابق امریکہ کو بھارت کی بڑی برآمدات میں انجینئرنگ اور الیکٹرانک کے سامان، جواہرات و زیورات اور دوا سازی کی مصنوعات وغیرہ شامل ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں امیر اللہ خان کا کہنا تھا کہ برآمدات میں اضافے کی وجہ سے حالیہ برسوں میں بھارت کو بہت زیادہ فائدہ پہنچا ہے۔

ان کے مطابق گزشتہ دو تین برس میں امریکہ کو بھارت سے سافٹ ویئر کی برآمدات کو بھی بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا ہے۔

اُن کے بقول اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت نے امریکہ سے خاص طور پر بڑی تعداد میں ڈرونز درآمد کرنے شروع کر دیے ہیں۔ اس کی مثال عام طور پر تمام ماہرین دیتے ہیں۔

کن شعبوں میں زیادہ تجارت ہو رہی ہے؟

سینئر اقتصادی تجزیہ کار ارچنا راؤ ویب سائٹ ’انڈیا بریفنگ‘ میں اپنے تجزیاتی مضمون میں لکھتی ہیں کہ حالیہ نو برسوں کے تجارتی اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ اس دوران بھارت امریکہ تجارتی شراکت داری کو فروغ حاصل ہوا ہے۔

ان کے بقول امریکہ میں جن بھارتی اشیا کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے ان میں کپڑا، ادویات اور ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ البتہ اس اضافے کو عارضی دھچکہ بھی لگا۔ کووڈ-19 کے درمیان بھارتی برآمدات میں کمی آئی تھی۔

ماہرین کے مطابق کرونا وبا کے بعد کے دور میں امریکہ کو بھارتی برآمدات میں اضافہ ہوا اور باہمی تجارت جلد ہی معمول پر آگئی۔

معاشی تجزیہ کار وویک شکلا کہتے ہیں کہ کرونا وبا کے بعد کے دور میں امریکہ سے درآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بھارت میں جن امریکی چیزوں کی مانگ ہے ان میں مشینری، ایئر کرافٹ، ٹیکنالوجی مصنوعات اور قدرتی گیس جیسی توانائی کی اشیا قابلِ ذکر ہیں۔

یاد رہے کہ رواں مالی سال 31 مارچ کو ختم ہو جائے گا۔ اس کے مکمل ہونے کے بعد وزارتِ تجارت تازہ تجارتی اعداد و شمار جاری کرے گی۔

ڈاکٹر امیر اللہ خان بھی بھارت میں امریکہ سے ٹیکنالوجی کی درآمدات کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں اس میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکہ میں بھارت کی برآمدات کا درآمدات سے زیادہ ہونا امریکہ کے ساتھ بھارتی تجارت کے سرپلس میں جانے کی بڑی وجہ ہے۔

براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں سب سے زیادہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) امریکہ سے آتی ہے جن میں ٹیکنالوجی، ای کامرس، قابلِ تجدید توانائی، دفاع، خلا اور صحت کے شعبے شامل ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی کمپنیوں نے بھارت کے ای کامرس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اپنی توسیع کی ہے۔

اس میدان میں ایمیزون، گوگل اور مائیکروسافٹ جیسی کمپنیاں قیادت کر رہی ہیں۔

امریکہ میں نئی انتظامیہ کی آمد اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف میں اضافے کے اعلان کے بعد تجارتی ماہرین آنے والے دنوں میں باہمی تجارت کے فروغ کے سلسلے میں بے یقینی میں مبتلا ہیں۔

ڈاکٹر امیر اللہ خان کے مطابق نئی امریکی انتظامیہ نے اپنے تجارتی خسارے کو کم کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ لہٰذا بہت ممکن ہے کہ امریکہ محصولات میں اضافہ کر دے۔

ان کے بقول امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت خاص طور پر توانائی وغیرہ زیادہ درآمد کرے۔ اگر بھارت سے درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی ہوئی تو اس کا فوری اثر ایکسچینج ریٹ پر پڑے گا اور بھارتی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مزید اضافہ ہوگا۔

اس وقت بھارتی روپیہ ایک ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 88 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس صورتِ حال میں اس کے 100 روپے تک پہنچ جانے کا اندیشہ ہے۔

ان کے خیال میں آنے والے دنوں میں بھارتی تجارت کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان کے بقول نئی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ اس بات کی حوصلہ افزائی کرے گی کہ لوگ امریکہ میں مینوفیکچرنگ کریں اور وہاں سافٹ ویئر وغیرہ بنائیں، اس سے بھارت کی سافٹ ویئر درآمدات پر اثر پڑے گا۔

ڈاکٹر امیر اللہ خان اس معاملے میں اظہار تشویش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ویزا کے اجرا میں سختی ہو اور وہاں پہلے کے مقابلے میں کم لوگ جا سکیں تو وہاں سے بڑی مقدار میں جو زرمبادلہ آتا ہے اس میں کمی آئے گی۔

لیکن وہ سافٹ ویئر ایکسپورٹ میں کمی اور ویزا میں سختی اور تخفیف کو بہت زیادہ تشویش ناک نہیں مانتے۔ البتہ وہ کہتے ہیں امریکہ سے مینوفیکچرنگ اور سروسز کے سیکٹر اور شیئر مارکیٹ میں جو براہ راست ایف ڈی آئی آتی ہے اس میں کمی آجائے گی اور وہ زیادہ پریشان کن معاملہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر ایف ڈی آئی میں کمی ہوتی ہے تو دو باتیں ہوں گی۔ یعنی جی ڈی پی پروڈکشن کم ہو گا اور بیلنس آف پیمنٹ ڈیفیسٹ بڑھ جائے گا۔

اس صورت میں بھارت کو اخراجات کے لیے مزید رقوم درکار ہوں گی اور وہ سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہوگا۔ ان کے خیال میں اگلے دو ایک سال بھارت کے لیے بہت چیلنجنگ ہوں گے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق بھارت وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکہ دورے سے قبل ٹیرف میں اضافی تخفیف کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کا مقصد مزید امریکی برآمدات کی حوصلہ افزائی کرنا اور امریکہ کے ساتھ کسی تجارتی تنازع سے بچنا ہے۔

وزیر اعظم مودی 12 اور 13 فروری کو امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں جہاں وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ ٹرمپ کے دوبارہ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان سے مودی کی یہ پہلی ملاقات ہو گی۔

امریکہ کے علاوہ چین سے بھی بھارت کی تجارت کافی بڑھی ہے۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ جہاں امریکہ کے ساتھ بھارتی تجارت سرپلس میں ہے وہیں چین کے ساتھ خسارے میں ہے۔

ڈاکٹر امیر اللہ خان کے مطابق اس کی صرف ایک وجہ ہے۔ وہ یہ کہ چینی مصنوعات بہت زیادہ سستی ہوتی ہیں۔ آپ یہاں کی کوئی بھی چیز خریدیں وہ چین میں بنی اشیا سے مہنگی ہو گی۔ لہٰذا چین سے برآمد کرنا سب کے لیے منافع بخش ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے ساتھ بھارت کی تجارت غیر متوازن اور خسارے میں ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG