رسائی کے لنکس

عمران خان آرمی چیف کو بار بار خط  لکھ کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • عمران خان اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، مجیب الرحمان شامی
  • خان صاحب کا خیال ہے کہ اُنہیں کسی بھی سیاسی راستے سے کوئی ریلیف ملنے والا نہیں ہے جب کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد عدالتی منظر نامہ بھی تبدیل ہو چکا ہے، سلیم بخاری
  • عمران خان کی جانب سے جو غلطیاں نو مئی سے شروع ہوئیں وہ اب تک جاری ہیں، سہیل وڑائچ
  • عمران خان فوج کے اندر ایک کنفیوژن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔اُن کا خیال تھا کہ وہ جارحانہ پوزیشن اختیار کر کے ریاست کو ایک دفاعی پوزیشن پر لے جائیں گے، لیکن ایسا اب تک نہیں ہو سکا ہے، سلمان غنی
  • عمران خان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ سیاسی جدوجہد کے راستے اختیار کریں، سلیم بخاری
  • عمران خان کی نہ تو پارٹی پر گرفت ہے اور نہ کارکنوں پر، جس کے سبب پی ٹی آئی بطور جماعت جب بھی کسی احتجاج یا جلسے کا اعلان کرتی ہے تو کوئی بھی اُسے سنجیدہ نہیں لیتا، سہیل وڑائچ

لاہور _ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کےنام حال ہی میں دوسرا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے نئی قانون سازی سمیت دیگر امور پر بات کی ہے۔

فوجی قیادت کی جانب سے عمران خان کے خطوط پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں سے بات کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا عمران خان کو اِن خطوط لکھنے کا کیا فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے۔

کالم نویس اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی سمجھتے ہیں کہ عمران خان اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو پاکستانی فوج اور عدلیہ سے شکایات ہیں اور اِنہی شکایات کا اظہار ان کی جانب سے آرمی چیف اور چیف جسٹس کے لکھے گئے خطوط سے ہو رہا ہے۔

کالم نویس اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ خان صاحب کا یہ خیال ہے کہ اسلام آباد میں طاقت کے حلقوں تک پہنچنے کا راستہ سیاسی نہیں ہے اور اُنہیں کسی بھی سیاسی راستے سے کوئی ریلیف ملنے والا نہیں جب کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد عدالتی منظر نامہ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔

سلیم بخاری کے مطابق فوج کہہ چکی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی ڈائیلاگ کا حصہ نہیں بنے گی اور اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ گو کہ یہ بات سو فی صد ٹھیک ہےیا نہیں یہ ایک الگ بات ہے لیکن یہ اُن کا بیان ہے۔

تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ نے کہا کہ خط لکھنا عمران خان کا حق ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مظلوم فریق ہیں۔اُن کے ساتھ ظلم ہو رہے ہیں لیکن ان کی جانب سے جو غلطیاں نو مئی سے شروع ہوئیں وہ اب تک جاری ہیں۔

ان کے بقول، عمران خان کے مشیر جیل میں انہیں بتاتے ہیں کہ سارا پاکستان تیار ہے اگر آپ (عمران خان) کہیں تو کل انقلاب آ جائے جب کہ پارٹی کی موجودہ قیادت ٹھیک نہیں ہے۔

عمران خان اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہے جہاں وہ القادر ٹرسٹ کیس میں 14 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جب کہ ان کے خلاف دیگر مختلف مقدمات بھی درج ہیں۔

سہیل وڑائچ کے مطابق جیل میں موجود عمران خان بطور قائد حقیقت پر مبنی تجزیہ نہیں کر پا رہے۔ جس کے باعث وہ مسلسل انقلاب اور احتساب کی باتیں کر رہے ہیں اور ان سے فیصلے بھی غلط ہو رہے ہیں۔

تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے جو مذاکرات چل رہے ہیں وہ 99 پر جا کر رُک جاتے ہیں پھر جو لوگ پسِ پردہ مذاکرات کرا رہے ہیں وہ سب کچھ طے کر کے چلے جاتے ہیں پھر اُس پر کوئی نہ کوئی کاٹا لگ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی کے ذریعے مذاکرات نہ ہونے پر عمران خان نے براہِ راست بات کرنے پر اکتفا کیا۔ اِسی لیے انہوں نے اپنے تمام مسائل فریم کر کے خطوط کی صورت میں لکھ دیے ہیں۔اُ

چوہدری غلام حسین کے مطابق عمران خان کہہ چکے ہیں کہ عوام اور فوج لازم و ملزوم ہیں اور دونوں کو اکٹھے چلنا چاہیے۔یہی بات آج یا بعد میں سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔

تجزیہ کار اور کالم نویس سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ عمران خان اپنے خطوط سے ملک میں ایک نفسیاتی کیفیت طاری کرنا چاہ رہے ہیں۔ وہ خود بھی اِسی کیفیت کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان فوج کے اندر ایک کنفیوژن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جب سے عدمِ اعتماد س کے ذریعے اُن کی حکومت ختم ہوئی ہے اس کے بعد سے اُن کا خیال تھا کہ وہ جارحانہ پوزیشن اختیار کر کے ریاست کو ایک دفاعی پوزیشن پر لے جائیں گے، لیکن ایسا اب تک نہیں ہو سکا ہے۔

سلمان غنی کے مطابق عمران خان فوجی قیادت کو خطوط لکھ کر جو باتیں کر رہے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ فوج اپنے سپہ سالار کے ساتھ ہوتی ہے۔

سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کیے گئے خط میں عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو دور کرنے کے لیے آرمی چیف کو خط لکھا تھا جس کا جواب غیر سنجیدگی سے دیا گیا۔ خط کا مقصد فوج اور عوام کے درمیان دن بدن بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کرنا ہے۔

اِس سے قبل عمران خان نے تین فروری کو بھی آرمی چیف کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے فوج کو پاکستان تحریکِ انصاف کے بارے میں پالیسیاں تبدیل کرنے کو کہا تھا۔ اُس خط پر فوجی قیادت کی جانب سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا تھا۔

احتجاجی سیاست ریلیف کیوں نہیں دے پا رہی؟

تجزیہ کار سہیل ورائچ سمجھتے ہیں کہ اِس وقت پاکستان تحریکِ انصاف میں کوئی تنظیم سازی نہیں ہے اور وقت کے ساتھ اِنہوں نے اِس پر کوئی توجہ بھی نہیں دی۔ اِس وقت جماعت میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ارکانِ اسمبلی کے ذریعے ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تنظیم سازی نہ ہونے کے سبب عمران خان کی نہ تو پارٹی پر گرفت ہے اور نہ کارکنوں پر، جس کے سبب پی ٹی آئی بطور جماعت جب بھی کسی احتجاج یا جلسے کا اعلان کرتی ہے تو کوئی بھی اُسے سنجیدہ نہیں لیتا۔

سہیل وڑائچ نے کہا کہ یہ صورتِ حال صرف پاکستان کے اندر ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی ہے۔ عمران خان کے لوگ سیاسی اعتبار سے تھک چُکے ہیں۔

تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کی رائے میں عمران خان کی بات کی شنوائی ہو یا نہ ہو لیکن وہ اپنا مقدمہ لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور رائے عامہ کو اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کر رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں وہ بتا رہے ہیں اور الزامات بھی لگا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اَب حکومت، اداروں یا متعلقہ افراد کا کام ہے کہ وہ الزامات کا جواب دیں

ہونا کیا چاہیے؟

تجزیہ کار سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ سیاسی جدوجہد کے راستے اختیار کریں۔ پارلیمنٹ میں اپنا دباؤ بڑھائیں۔ لیکن وہ اِس قوت کو جمہوری انداز میں استعمال نہیں کر پا رہےجس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں یہ راستہ اختیار کرنے سے نتائج جلد سامنے نہیں آئیں گے۔

سلیم بخاری کی رائے میں عمران خان کو نئے انتخابات کے لیے نئے سیاسی محاذ بنانے چاہئیں اور اُن سیاسی محاذوں کی لگامیں کھینچنے کے بجائے اُن پر اعتماد کریں۔

تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ سیاسی قوتوں کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے اور وہ سیاسی قوتوں کو ساتھ ملانے کا ہے۔سیاسی قوتوں کے پاس کوئی فوج نہیں ہوتی، اِن کے پاس سیاسی قوت ہوتی ہے اور سیاسی قوتیں سیاسی راستے نکال کر ہی آگے کی طرف جاتی ہیں۔ لیکن خان صاحب کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ سولو فلائیٹ چاہتے ہیں۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو سیاسی اقدامات لینے چاہئیں لیکن وہ نہیں لے رہے۔ حکومت سے مذاکرات کے دوران جتنی گنجائش ملتی اُس سے فائدہ اُٹھاتے اور آگے بڑھتے۔

اُنہوں نے کہا کہ سیاسی اتحاد بنانے میں عمران خان نے بہت دیر کر دی ہے لیکن اَب جو سیاسی اتحاد بنا ہے اُس میں تضادات اتنے ہیں کہ وہ کیسے حل ہوں گے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں آگے بڑھنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے اور وہ ہے صبر، صبر کے ساتھ منصوبہ بندی۔ اُنہیں جتنی جگہ ملتی ہے وہ لیں اور آہستہ آہستہ آگے بڑھیں۔

ان کے بقول، پاکستان میں سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ پاکستان کوئی مثالی جمہوری ملک نہیں ہے جہاں جو جیتے گا وہی آ جائے گا۔ یہاں ایک ہائیبرڈ سسٹم ہے۔ یہاں اسٹیشلشمنٹ کو اور اسٹیک ہولڈرز کو جگہ دینی پڑتی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG