|
لاہور -- سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کے بعد ماہرین کے مطابق فریقین کے درمیان مفاہمت کے امکانات دم توڑ رہے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ فریقین کی جانب سے جب تک لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا، اس وقت تک کسی 'بریک تھرو' کی توقع نہیں ہے۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد اعلان کیا تھا کہ نو مئی اور 26 مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن نہ بننے پر عمران خان نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خیال رہے کہ تحریکِ انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور 16 جنوری کو ہوا تھا جس میں پی ٹی آئی نے حکومت کو 'چارٹر آف ڈیمانڈ' پیش کیا تھا جس میں سات روز کے اندر جوڈیشل کمیشن بنانے کا بھی مطالبہ شامل تھا۔
تحریکِ انصاف کے اس اعلان پر ردِعمل دیتے ہوئے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ ابھی کچھ ورکنگ ڈے باقی تھے، لیکن تحریکِ انصاف نے یک طرفہ طور پر مذاکرات ختم کیے۔
سیاسی حلقوں میں یہ بات کی جا رہی ہے کہ اِن مذاکرات کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا فریقین دوبارہ مذاکرات شروع کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی تیسری قوت مذاکرات دوبارہ شروع کرانے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے؟
پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرت کا آغاز دسمبر میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی جانب سے مذاکرات میں تعاون کی پیش کش کے بعد ہوا تھا۔
اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے ہی تمام مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔
حکومت اور تحریکِ انصاف کے درمیان دسمبر اور جنوری میں مذاکرات کے تین ادوار ہوئے۔ پی ٹی آئی نے 16 جنوری کو مذاکرات کے تیسرے دور میں 'چارٹر آف ڈیمانڈ' پیش کیا جس میں نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر عدالتی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
'اب فریقین کے درمیان ڈیڈ لاک ہو چکا ہے'
تجزیہ کار اور کالم نویس مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ فریقین کے درمیان اب ڈیڈ لاک ہو چکا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کمیشن بنانے کا اعلان کر دیتی ہے تو وہ پی ٹی آئی دوبارہ مذاکرات کی طرف آ سکتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی نظر ثانی نہیں کرتی تو اُن کے بقول وہ کوئی گرینڈ الائنس بنائیں گے۔ اُس کے بعد دیکھیں گے کہ احتجاج کا طریقہ کیا ہو گا اور احتجاجی تحریک بھی شروع کی جا سکتی ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ مذاکرات پھر بھی کسی 'دوسری جگہ' ہو رہے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت اچانک جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کر دے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چوں کہ موجودہ حکومت کمزور ہے اور اِس پر اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے دباؤ بڑھتا ہے جس کے بعد موجودہ حکومت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ عوامی دباؤ اسلام آباد اور راولپنڈی کا رُخ کرے۔
تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ ابھی تک مذاکرات کا فریقین کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ یہ صرف گیند کو ایک دوسرے کی طرف پھینک رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک فریق کہتا ہے کہ اُس نے مطالبات پیش کیے ہیں جب کہ دوسرا فریق کہتا ہے کہ کمیٹی بن گئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جن پی ٹی آئی کارکنوں پر کوئی مقدمات نہیں ہیں اُنہیں رہا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اِسی طرح کمیشن بنانے میں کوئی بھی کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہے لیکن یہ ابھی اِس طرف آئے ہی نہیں ہیں۔
'مذاکرات کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر ہوتے ہیں'
پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ وہ بہت حیران ہیں کہ ایسے اچانک مذاکرات کیسے ختم ہو جاتے ہیں۔
اُن کے بقول یہ مذاکرات بغیر کسی تیاری کے شروع ہوئے اور اَب جس طرح اُنہیں ختم کیا گیا ہے وہ بھی کوئی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں تو ایک فریق یہ کہے کہ ہر حال میں اس کا مطالبہ مانا جائے ورنہ بات ختم تو ایسا نہیں ہوتا۔ مذاکرات میں کچھ دو اور کچھ لو ہوتا ہے۔
کیا احتجاجی تحریک شروع ہو سکتی ہے؟
مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک چلانے کی صلاحیت کافی متاثر ہو چکی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات آگے نہیں بڑھتے تو پی ٹی آئی کو عدالتوں کی طرف دیکھنا ہو گا یا پھر احتجاج کا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔
احمد بلال محبوب کے بقول یہ بھی ہو سکتا ہے کہ 'پسِ پردہ' کچھ ہو رہا ہو اور کچھ عرصے کے لیے سسٹم کو چلتے رہنے کی یقین دہائی کرا دی گئی ہو۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پی ٹی آئی دوبارہ احتجاج کا راستہ اختیار کر سکتی ہے لیکن اُن کی رائے میں یہ راستہ اختیار کرنے کا رسک زیادہ ہو گا۔
اُن کے بقول لگتا ہے کہ ایوان کے اندر بھرپور احتجاج ہو گا اور عدالتوں سے بھی رُجوع کیا جائےگا۔
فورم