رسائی کے لنکس

غزہ میں جنگ بندی؛ 15 ماہ لڑائی کے بعد حماس کیسے برقرار ہے؟


  • حماس کے ماتحت پولیس اہل کار غزہ کے کئی علاقوں میں نظر آئے ہیں۔
  • اسرائیل کے ساتھ ہونے والی گزشتہ چار جنگوں سے حماس غزہ میں اقتدار میں ہے۔
  • غزہ کی جنگ حماس کی کامیابی کے مضبوط تاثر کے ساتھ اختتام پذیر ہو رہی ہے: اسرائیلی ماہر
  • اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ حماس نے اس سے زیادہ جنگجو بھرتی کر لیے ہیں جتنے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں کھوئے تھے۔
  • ایک سینئر اسرائیلی صحافی ایوی اساکاروف کا کہنا ہے فلسطینیوں کے پاس حماس کا متبادل نہیں اس لیے اسی کی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔
  • حماس کے فلسطینی ناقدین کا کہنا ہے کہ کوئی اور متبادل نہ ہونے کی وجہ سے حماس کا وجود برقرار ہے۔

جنگ بندی کے بعد تباہ شدہ غزہ میں امن آتے ہی ایک بار پھر حماس کے جنگجو اپنی پناہ گاہوں سے باہر آ گئے ہیں۔

عسکریت پسند گروہ حماس نے 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ میں نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھا بلکہ تاحال غزہ میں اس کا کنٹرول اپنی جگہ قائم ہے۔

معاہدے کے بعد غزہ میں امدادی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور پیر کو حماس کی ماتحت حکومت نے کہا ہے کہ وہ امدادی سامان کی تقسیم کے لیے معاونت کرے گی۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اسرائیل اپنی تمام فوجی قوت غزہ میں استعمال کرنے کے باجود حماس کی حکومت ختم نہیں کر سکا جو اس کی جنگ کے بنیادی اہداف میں سے ایک تھا۔

اسی لیے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فریقین کے درمیان ایک بار پھر لڑائی ہو سکتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نتیجہ موجودہ حالات سے مختلف نہیں ہو گا۔

اتوار کو جب حماس نے تین اسرائیلی یرغمال خواتین کو ریڈ کراس کے حوالے کیا تو یہ ڈرامائی مناظر تھے۔ ان یرغمالوں کی گاڑیوں کو سر پر سبز پٹیاں باندھے حماس کے درجنوں جنگجوؤں نے گھیرے میں لے رکھا تھا جن کے ساتھ ساتھ سینکڑوں افراد کا ہجوم بھی تھا۔ یہ سب مناظر براہ راست اسرائیل اور دنیا بھر میں دیکھے گئے۔

غزہ میں دیگر مقامات پر سامنے آنے والے مناظر اس سے بھی زیادہ ڈرامائی تھے۔ حماس کی پولیس کے ہزاروں اہل کار سڑکوں پر نکل آئے اور انتہائی تباہ شدہ علاقوں میں بھی یہ دکھائی دیے۔

غزہ سٹی میں اپنے گھر واپس آنے والے محمد عابد نے بتایا کہ پولیس والے یہاں سے کہیں گئے نہیں تھے، فرق اتنا ہے کہ جنگ بندی کے بعد یہ اپنی وردیوں میں نظر آ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس والے بے گھر افراد کے کیمپس ہی میں رہتے تھے اور اسی وجہ سے وہاں چوری کے واقعات نہیں ہوئے۔

غزہ کے دیگر رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے اسپتالوں اور دیگر مقامات پر دفاتر بنا رکھے تھے جہاں لوگ شکایات درج کرا سکتے تھے۔

اسرائیل تواتر کے ساتھ حماس کو غزہ میں شہریوں کے بھاری جانی نقصان اور انفراسٹرکچر کی تباہی کا ذمے قرار دیتا آیا ہے۔

اس کے بقول حماس اپنے جنگ جوؤں کو رہائشی علاقوں، اسکولوں اور اسپتالوں میں رکھتی ہے جس کی وجہ سے یہ مقامات بھی لڑائی کی زد میں آتے ہیں۔

امریکہ نے بھی حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔

گہری جڑیں رکھنے والی تحریک

رائے عامہ کے جائزوں میں یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ فلسطینیوں کی اقلیت حماس کی حامی ہے لیکن فلسطینی سوسائٹی میں اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔

سن 1980 کی دہائی میں قائم ہونے والی تنظیم کا الگ لاگ مسلح اور سیاسی ونگ ہے۔ اس کے علاوہ حماس اپنا میڈیا اور کئی خیراتی پروگرام چلاتی ہے۔

حماس دہائیوں سے ایک منظم شورش جاری رکھے ہوئے ہے جس میں اسرائیلی فورسز پر حملے اور اسرائیل پر خودکُش اور بم حملے جیسی کارروائیاں کرنا بھی شامل ہے۔ اس کے کئی رہنما قتل ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ نئی قیادت لے لیتی ہے۔

حماس نے 2006 کے پارلیمانی الیکشن میں لینڈ سلائیڈ کامیابی حاصل کی تھی اور اگلے ہی برس اس نے فلسطینی اتھارٹی سے کشیدگی اور لڑائی کے بعد غزہ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔

اس کے بعد حماس نے غزہ میں ایک حکومتی ڈھانچہ کھڑا کیا تھا جس میں وزارتیں، پولیس اور بیورو کریسی کا نظام تھا۔ اس کی سیکیورٹی فورسز نے غزہ کے طاقت ور خاندانوں کو ایک صف میں کھڑا کردیا اور متحارب گروپس کو کچل دیا۔

ماہرین کے مطابق حماس نے اختلافی آوازوں کو بھی بے رحمی سے دبایا اور بعض مواقع پر اپنے خلاف ہونے والے احتجاج کو بھی کچل دیا۔

اسرائیل کے ساتھ ہونے والی گزشتہ چار جنگوں سے حماس غزہ میں اقتدار میں ہے۔ ایران کی مدد سے اس نے اپنی صلاحیتیں بڑھائی ہیں، اپنے راکٹس کی رینج بڑھا کر اسرائیل کے زیادہ اندر تک رسائی کے قابل بنایا ہے۔

اس کے علاوہ اسرائیل کے فضائی حملوں سے بچنے کے لیے حماس نے زیرِ زمین سرنگوں کے اپنے نیٹ ورک کو مزید بڑھایا ہے۔ سات اکتوبر 2023 تک حماس ہزاروں جنگ جوؤں کے دستے تیار کر چکی تھی۔

ان صلاحیتوں کے ساتھ حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک اور منظم دہشت گرد حملہ کیا تھا جس میں اس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل میں زمین، فضا اور سمندر تینوں راستوں سے حملہ کردیا تھا۔

اس حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر سویلین تھے۔ جب کہ حماس کے جنگجو 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

جنگ جو اس سے پہلے نہیں لڑی گئی

اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں لڑائی کا آغاز کیا جس میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 47 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں اور اس پٹی میں ہر طرف عمارتیں ملبے میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ غزہ کی لگ بھگ 90 فی صد آبادی ایک سے زائد بار بے گھر ہو چکی ہے۔

غزہ میں جنگ کے دوران روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی فوج کی جانب سے درجنوں جنگجوؤں کو ہلاک کرنے یا کسی کمانڈر کو گرفتار کرنے یا کسی سرنگ، کمپلیکس یا ہتھیار کے ذخیرے کو تباہ کرنے کے اعلانات سامنے آتے رہے۔

اسرائیلی فورسز نے حماس کے ٹاپ لیڈر یحییٰ سنوار اور دیگر کئی اہم رہنماؤں کو ہلاک کیا۔ لیکن حماس کی جلاوطن قیادت نہیں بکھری اور یحییٰ سنوار کے بھائی محمد سنوار نے مبینہ طور پر غزہ میں زیادہ بڑی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے 17 ہزار جنگجو ہلاک کیے ہیں۔ اس دعوے کو درست مانا جائے تو اسرائیل جنگ سے قبل حماس کی جتنی افرادی قوت کا اندازہ لگایا گیا تھا ان میں سے نصف کو ختم کر چکی ہیں۔ تاہم فوج نے تاحال اپنے دعوے کے ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔

اسرائیل کا دعویٰ رہا ہے کہ اس نے غزہ میں انتہائی محتاط انداز میں کارروائیاں کی ہیں لیکن ان حملوں میں خواتین، بچوں اور عام شہریوں کی ہلاکتیں رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔

اسی طرح اسرائیل شہریوں کی اموات کے لیے حماس کو ذمے دار قرار دیتا ہے۔ لیکن پناہ گزین کیمپوں میں اس کے حملوں سے بچ جانے والے افراد حماس کے ممکنہ جنگجو ہو سکتے ہیں۔

حماس کے حملے کے بعد ویران ہونے والی اسرائیلی بستی کا احوال
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:15 0:00

رواں ماہ کے آغاز میں امریکہ کے سیکریٹری خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ حماس نے اس سے زیادہ جنگجو بھرتی کر لیے ہیں جتنے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں کھوئے تھے۔

فلسطینی امور کے ماہر اور اسرائیلی انٹیلی جینس کے سابق افسر مائیکل ملشٹن کا کہنا ہے کہ حماس اب دوبارہ سات اکتوبر کی طرح کے حملے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے لیکن اسرائیل کا نہ پھٹنے والا گولہ باردود اور گھریلو ساختہ دھماکہ خیز مواد استعمال کر کے اپنی مزاحمت جاری رکھ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حماس گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے اور خود بدلے حالات کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ جنگ حماس کی کامیابی کے مضبوط تاثر کے ساتھ اختتام پذیر ہو رہی ہے۔

’اسرائیل نے متبادل نہیں چھوڑا‘

حماس کے فلسطینی ناقدین کا دیرینہ مؤقف ہے کہ جنگ اب مشرقِ وسطی کے تنازع کا حل نہیں ہے جو اس تنظیم کے وجود میں آنے سے کئی دہایوں پہلے سے چلا آ رہا ہے۔

ان کا مؤقف رہا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس اگر اسرائیل کا قبضہ ختم کرانے کے لیے کوئی متبادل راستہ ہوتا تو وہ کب سے حماس سے اپنی راہیں جدا کر لیتے۔

'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو فلسطینی ریاست کے قیام کے مخالف ہیں اور انہوں نے یقینی بنایا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس کوئی اور راستہ نہ رہے۔

کیا اسرائیل اور حماس جنگ بندی ڈیل پر اتفاق کریں گے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:20 0:00

امریکہ اور عرب ممالک یہ تجویز پیش کرتے آئے ہیں کہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو مزید مؤثر بنایا جائے تاہم نیتن یاہو ایسی تجاویز کو نظر انداز کرتے آئے ہیں۔ اس کے برعکس وہ دونوں علاقوں پر غیر معینہ مدت تک سیکیورٹی کنٹرول قائم کرنا چاہتے ہیں۔

ایک سینئر اسرائیلی صحافی اور نیٹ فلکس پر معروف ہونے والی سیریز ’فوضیٰ‘ کے کو کریئٹر ایوی اساکاروف کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات سے انکار اس جنگ کی سب سے بڑی ’شکست‘ ہے۔

اپنے ایک حالیہ مضمون میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’اسرائیل ایک ڈراؤنے خواب سے دوسرے ڈراؤنے خواب میں آنکھ کھول رہا ہے۔۔۔ حماس اب بھی حکومت کرتی رہے گی، سرنگیں بناتی رہے گی اور مزید بھرتیاں کرتی رہے گی کیوں کہ کسی مقامی مقابل کے سامنے آنے کا کئی دباؤ نہیں ہے۔‘‘

نتین یاہو پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر چھ ہفتوں پر مشتمل جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں اسرائیل کے اہداف پورے نہ ہوئے تو جنگ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔

ادھر حماس کا کہنا ہے وہ لمبے عرصے تک جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا تک دیگر کئی درجن یرغمالوں کو رہا نہیں کرے گی۔

بظاہر اس کی ٹھوس وجہ نظر نہیں آتی ہے کہ ایسی کسی صورتِ حال میں مزید طویل لڑائی مختلف نتائج لے کر آئے۔

اس خبر کی تفصیلات ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG