رسائی کے لنکس

غزہ جنگ بندی معاہدہ کرانے والوں میں کون کون شامل تھا؟


  • اسرائیل کی جانب سے موساد کے سربراہ نے مذاکراتی ٹیم کی قیادت کی۔
  • قطر کے وزیرِ اعظم اور مصر کے انٹیلی جینس چیف نے حماس اور اسرائیل کے درمیان رابطہ کاری کی۔
  • مذاکرات کے آخری دور میں صدر بائیڈن اور نو متنخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی بھی شریک ہوئے۔
  • خلیل حیہ نے بات چیت میں حماس کی نمائندگی کی۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے لیے امریکہ، مصر اور قطر نے ثالثی کی طویل کوششیں کیں۔

غزہ میں 15 ماہ سے زائد جاری رہنے والی جنگ روکنے کے لیے ہونے والی بات چیت میں کئی رکاوٹیں آئیں اور کئی مواقع پر معاہدے کے قریب پہنچ کر پیش رفت رک گئی۔

رواں ہفتے بات چیت کا ہونے والا آخری دور کامیاب رہا جس میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہر جانب سے ثالثی کرنے والے اعلیٰ ترین حکام جمع ہوئے۔

جنگ بندی کے معاہدے کرانے میں اہم ترین کردار ادا کرنے والے کون تھے؟ اس بارے میں یہاں تفصیلات بتائی جا رہی ہیں۔

ڈیوڈ برنیا

اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ڈیوڈن برنیا نے تمام مذاکراتی عمل میں اسرائیلی ٹیم کی سربراہی کی۔

اس ٹیم میں ان کے ساتھ اسرائیل کی سیکیورٹی ایجنسی شن بیت کے سربراہ اور وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کے اعلیٰ ترین سیاسی اور عسکری مشیر بھی شامل تھے۔ اس ٹیم نے بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ بھی ملاقاتیں کی ہیں۔

اگرچہ ڈیوڈ برنیا مذاکرات میں اسرائیل کی جانب سے اعلیٰ ترین عہدے دار تھے لیکن انہوں نے اپنی سرگرمیاں زیادہ عام نہیں کیں۔

رونین بار

اسرائیل کی سیکیورٹی ایجنسی شن بیت کے سربراہ رونین بار کئی ماہ تک جاری رہنے والے ان مذاکرات میں شریک رہے۔

بار جس ایجنسی کے سربراہ ہیں وہ فلسطینی قیدیوں کی سیکیورٹی سے متعلق امور بھی دیکھتی ہے۔

اسرائیل انہیں قیدیوں میں سے بعض کو معاہدے پر عمل درآمد شروع ہونے کی صورت میں اپنے یرغمالوں کے بدلے رہا کرے گا۔

بار 2021 سے شن بیت کے سربراہ ہیں۔ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد انہوں نے عسکریت پسندوں کو روکنے میں ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔

رونین بار کہہ چکے ہیں کہ جنگ ختم ہونے کے بعد سات اکتوبر کو ہونے والے واقعات کی تحقیقات کی جائیں گی۔

بریٹ مکگرک

مشرقِ وسطیٰ کے لیے صدر جو بائیڈن کے مشیر بریٹ مکگرک نے معاہدے کا مسودہ تیار کرنے کے لیے بہت کوششیں کیں۔

مکگرک گزشتہ دو دہائیوں سے امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ پر پالیسی سازی کا حصہ رہے ہیں۔ وہ اس عرصے میں ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن دونوں حکومتوں میں نیشنل سیکیورٹی کونسل اور وائٹ ہاؤس میں ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے حماس اور حزب اللہ کے عہدے داروں سے ملاقات کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے کئی دورے بھی کیے۔

اسٹیو وٹکاف

نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے لیے نامزد کردہ خصوصی ایلچی ڈیوڈ مٹکاف نے حالیہ ہفتوں میں نیتن یاہو، قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی اور دیگر اہم ثالثوں سے متعدد ملاقاتیں کیں۔

وٹکاف فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے ایک سرمایہ کار ہیں اور ٹرمپ کی انوگرل کمیٹی کے شریک چیئرمین ہیں۔ جنگ بندی سے متعلق بات چیت میں وٹکاف مسلسل بائیڈن کی خارجہ امور کی ٹیم سے رابطے میں رہے۔

شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی

قطر کے وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے اپنے ملک کی جانب سے ثالثی کی کوششوں کی قیادت کی۔ بات چیت کے دوران حماس سے رابطے کے لیے وہ اہم ترین رابطہ کار تھے کیوں کہ بات چیت میں حماس اور اسرائیل نے براہِ راست ایک دوسرے سے رابطہ نہیں کیا۔

ان مذاکرات کا اہم ترین مرحلہ گزشتہ دنوں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پایا۔

الثانی کا کہنا ہے کہ جنگ بندی پر عمل درآمد اتوار سے شروع ہو جائے گا۔

حسن رشاد

اس مذاکرات میں حماس سے رابطہ کاری میں مصر کی جنرل انٹیلی جینس ایجنسی کے ڈائریکٹر حسن رشاد نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

رشاد اکتوبر 2024 سے اس عہدے پر کام کر رہے ہیں اور انہوں نے عباس کامل کی جگہ لی تھی جو نومبر 2023 سے اس معاہدے کے لیے ہونے والی بات چیت کا حصہ تھا۔

جنگ بندی پر بات چیت کے کئی ادوار قاہرہ میں بھی ہوئے اور معاہدے پر عمل در آمد کے لیے بھی ثالثوں کی مصر کے دار الحکومت میں ملاقات متوقع ہے۔

خلیل حیہ

مذاکرات میں حماس کے سیاسی بیورو کے قائم مقام سربراہ خلیل حیہ نے اپنی تنظیم کی نمائندگی کی۔ وہ قطر میں قیام پذیر ہیں لیکن وہ کسی اسرائیلی یا امریکی عہدے دار سے براہ راست نہیں ملے۔ اس کے بجائے مصری اور قطری ثالثوں نے فریقین کے درمیان رابطہ کاری کی ذمے داری ادا کی۔

مذاکراتی عمل میں خلیل حیہ کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں سات اکتوبر 2023 کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ یحییٰ سنوار کو ہلاک کردیا تھا۔ سمجھا جاتا ہے کہ اپنی موت تک سنوار ہی مذاکرات میں حماس کے مؤقف کا تعین کر رہے تھے۔

تاہم سنوار کی موت کے بہت پہلے سے حیہ حماس کے اہم امور کو دیکھ رہے ہیں۔ حیہ کو سنوار کے مقابلے میں کم سخت گیر سمجھا جاتا ہے اور وہ 2014 کی جنگ بندی میں یحییٰ کے نائب کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔

حیہ حماس کے دیرینہ عہدے دار ہیں اور غزہ میں 2007 میں اسرائیل کے ایک حملے میں بال بال بچے تھے۔ اس حملے میں ان کے کئی اہل خانہ کی جان گئی تھی۔

اس خبر کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG