|
واشنگٹن—روس، ایران اور چین نے امریکہ میں دو ماہ بعد ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش تیز کر دی ہے۔ یہ ممالک امریکی ووٹرز کی رائے کو متاثر کرنے کے لیے انتہائی مہارت سے تیار کی گئی حکمتِ عملی کا دائرہ پھیلا رہے ہیں۔
امریکی انٹیلی جینس اداروں نے حال ہی میں اس بارے میں جاری کی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ روس اس سلسلے میں مستقل خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا مقصد ڈیموکریٹک امیدوار اور موجودہ نائب صدر کاملا ہیرس کے مقابلے میں ری پبلکن صدارتی امیدوار اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات بڑھانا ہے۔
خفیہ اداروں کے مطابق روس کی ان کاوشوں میں کریملن کی پشت پناہی سے چلنے والا میڈیا کا ادارہ آر ٹی مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔
ایک سینئر انٹیلی جینس عہدے دار نے حساس معلومات پر گفتگو کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ روس کے کام کرنے والوں نے میڈیا کے ادارے ’آر ٹی‘ کی مدد سے ایسے نیٹ ورکس تشکیل دیے ہیں جو ووٹرز کو سابق صدر کی جانب راغب کرنے اور نائب صدر کے امکانات کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
عہدے دار کا کہنا تھا کہ ’’آر ٹی نے روس نواز بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے امریکہ اور مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا نیٹ ورک بنایا ہے اور ساتھ ہی اس مواد کو امریکہ کی ’آزادیٔ اظہار‘ کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘
انٹیلی جینس عہدے دار کا مزید کا کہنا تھا کہ آر ٹی ماسکو کی ایما پر چلنے والی اس مہم کا صرف ایک حصہ ہے جس کا مقصد نہ صرف وائٹ ہاؤس کی انتخابی دوڑ پر اثر انداز ہونا ہے بلکہ پورے امریکہ میں نچلی سطح کے انتخابات کو متاثر کرنا بھی اس کے مقاصد میں شامل ہیں اور ساتھ ہی سوئنگ اسٹیٹس میں اس کا زور بڑھا دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ووٹرز کی رائے پر اثرا انداز ہونے کے لیے روسی ہتھکنڈوں کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ اس میں کئی دیگر ادارے بھی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ روس ہر طرح کے انتخابات میں اتار چڑھاؤ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تقسیم کرنے والے ایشوز پھیلانے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ روس کی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کی نشان دہی مزید مشکل ہو گئی ہے۔
ان کے مطابق ان کوششوں میں مہارت کئی گنا بڑھی ہے اور اس کے لیے سوشل میڈیا پر کریملن کے تیار کردہ بیانیوں کو پھیلانے کے بجائے ایسی امریکی آوازوں کو بڑا کرکے پیش کیا جا رہا ہے جو روس کی حمایت میں اٹھتی ہیں۔
جمعے کو امریکی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ صرف روسی بوٹس اور ٹرولز اور فیک سوشل میڈیا پروفائلز کی بات نہیں، اگرچہ یہ بھی ان کوشوں کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم کسی چیز کو نظر انداز نہیں کر رہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ [روس کے صدر ولادیمیر] پوٹن امریکہ میں اختلاف کا بیج بونے کے ارادے رکھتے ہیں۔ وہ گمراہ کن معلومات اور روسی پراپیگنڈے کو ہوا دینا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ امریکی لوگوں کو اور ایسے ذرائع کو استعمال کرنا چاہتے ہیں جو ان کے نزدیک قابلِ اعتبار ہیں۔ چاہے یہ ذرائع آن لائن ہو یا ٹیلی وژن پر اور ہم اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘
انٹیلی جینس حکام نے روس کے اثر انداز ہونے کے لیے بنائے گئے نیٹ ورکس اور ان کے آپریشنز کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا ہے۔
بدھ کو امریکہ کے محکمۂ انصاف کی جانب سے جاری کی جانے والی فردِ جرم سے کریملن کے حالیہ آپریشنز کے پھیلاؤ پر کچھ روشنی پڑتی ہے۔
ایک مقدمے میں امریکہ نے آر ٹی کے دو ملازمین کو جعلی شناخت اور شیل کمپنیوں کے ذریعے ریاست ٹینیسی میں قائم ٹینیٹ میڈیا کو ایک کروڑ ڈالر فراہم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ کمپنی قدامت پسند انفلوئنسرز کی ویڈیوز اور پوڈ کاسٹس پروڈیوس کر رہے تھی۔
پراسیکیوٹر کے مطابق اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ ایسا مواد تیار کرنا اور پھیلانا تھا جسے ماسکو روس نواز پالیسیوں کے طور پر دیکھتا ہو۔
ایک علیحدہ کارروائی میں، امریکہ نے 32 انٹرنیٹ ڈومین ضبط کیے ہیں جو پوٹن کے ایک قریبی ساتھی کے ایک آپریشن سے براہِ راس منسلک تھے۔
امریکی حکام کے مطابق اس کا مقصد روسی پراپیگنڈا پھیلانے کے لیے مؤقر امریکی نیوز سائٹس کی نقل تیار کرنا تھا۔
آر ٹی نے اپنے اوپر عائد کیے گئے الزامات کو مضحکہ خیز قرار دے چکا ہے جب کہ ٹینٹ سے منسلک انفلوئنسرز نے سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس پر کہا ہے کہ وہ کمپنی کے ماسکو سے تعلق کے بارے میں لاعلم تھے۔
امریکی انٹیلی جینس کے الزامات پر واشنگٹن میں روسی سفارت خانے نے تاحال کو جواب نہیں دیا ہے۔ الببہ ماضی میں وہ ایسے الزامات کو ’روسو فوبک‘(روس ہراسی) قرار دے چکا ہے۔
ٹرمپ اور ہیرس کی انتخابی مہم سے تبصرے کے لیے کیے گئے رابطوں پر بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
تاہم اس سے قبل ٹرمپ کے لیے روسی حمایت سے متعلق امریکی انٹیلی جینس کی رپورٹس پر سابق صدر کی انتخابی مہم کی جانب سے تنقید کی گئی تھی اور ایسے عوامی بیانات کی نشان دہی کی گئی تھی جس میں پوٹن نے ٹرمپ کے مخالفین کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
رواں برس جولائی میں ٹرمپ کمپین کی نیشنل پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے وی او اے کو اپنی ایک ای میل میں بتایا تھا کہ ’’جب ٹرمپ صدر تھے تو روس اور امریکہ کے تمام حریف اپنی حدود میں تھے کیوں کہ انہوں خوف تھا کہ امریکہ کا ردِ عمل کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
امریکی انٹیلی جینس حکام کے مطابق پوٹن کے بیانات پر یقین کرنا غلطی ہو گی۔ اس میں گزشتہ جمعرات کو کاملا ہیرس کے حق میں دیا گیا ان کا بیان بھی شامل ہے۔
سینئر عہدے دار کے مطابق امریکی انٹیلی جینس پوٹن کے عوامی بیانات کو روس کے خفیہ آپریشنز کی نمائندگی تصور نہیں کرتے ہیں۔ ماضی میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہی جب پوٹن کے بیانات اور روس کی خفیہ کارروائیوں میں کوئی ہم آہنگی نہیں تھی۔
ان کے بقول مثال کے طور پر پوٹن نے تو یہ بھی کہا تھا کہ وہ یوکرین پر حملہ نہیں کریں گے۔
ایران اور چین انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے کوشاں
جمعے کو سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق نومبر میں ہونے والے امریکی انتخابات کو اپنے مفادات کے حق میں موڑنے کے لیے صرف روس ہی کوششیں نہیں کر رہا ہے بلکہ ایران اور چین نے بھی انتخابات سے دو ماہ قبل اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
انٹیلی جینس حکام کا کہنا تھا کہ ایران ماضی کے مقابلے میں اس بار زیادہ متحرک ہے۔ لیکن اس کے حربے اور اپروچ ماضی سے مختلف نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران کثیر جہتی حکمتِ عملی کے ساتھ داخلی اختلاف کی خلیج بڑھانے اور امریکی جمہوری نظام پر رائے دہندگان کا اعتماد کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
گزشتہ ماہ امریکی حکام نے ایران پر ٹرمپ کی کمپین کے خلاف ہیکنگ اور معلومات لیک کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ ایران سے تعلق رکھنے والے کارندوں نے ہیرس کی کمپین میں بھی مداخلت کی کوششیں کی ہیں۔
امریکی انٹیلی جینس حکام کے مطابق بظاہر چین نے خود کو امریکہ کی صدارتی دوڑ سے دور رکھا ہوا ہے اور اس کے نزدیک ٹرمپ اور ہیرس میں بہت کم فرق ہے۔
لیکن ایسے اشارے ملتے ہیں کہ چین نے بھی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔
عہدے دار کا کہنا تھا کہ امریکی خفیہ ادارے چین کی جانب سے ایسے امیدواروں پر توجہ دیتے ہوئے ووٹرز کی رائے پر اثرا انداز ہونے کی کوششوں سے آگاہ ہے جنھیں بیجنگ اپنے سیکیورٹی مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چین کے لیے کام کرنے والے عناصر نے چھوٹی سطح پر امریکی سامعین کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے جس میں سیاسی اختلافات کو ہوا دینے، غزہ تنازع سے متعلق احتجاج سے متعلقہ مواد اور دونوں امیدواروں سے متعلق منفی کہانیاں پھیلانا شامل ہے۔
’چین کے خلاف بدنیتی پر مبنی قیاس آرائیاں‘
امریکہ میں چین کے سفارت خانے نے جمعے کو امریکی انٹیلی جینس کے جائزوں کی تردید کی ہے۔
چینی سفارت خانے کے ترجمان نے وی او اے کو ایک ای میل میں لکھا ہے کہ ’’چین امریکہ انتخابات میں مداخلت ارادہ نہیں رکھتا اور نہ ہی ایسا کرے گا۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ امریکہ بھی چین کو الیکشن میں مسئلہ نہیں بنائے گا۔‘‘
سوشل میڈیا کے ذریعے امریکی رائے عامہ پر اثرا انداز ہونے کے الزامات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’’یہ چین کے خلاف بدنیتی پر مبنی قیاس آرائیاں ہیں جن کی چین سختی سے مخالفت کرتا ہے۔‘‘
اگرچہ امریکی انٹیلی جینس نے گمراہ کُن معلومات پھیلانے سے متعلق روس، ایران اور چین کے نمایاں کردار کی نشان دہی کی ہے۔ لیکن ان کوششوں کا دائرہ صرف ان تین ممالک تک محدود نہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ بہت چھوٹے پیمانے پر سہی لیکن کیوبا بھی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی ممالک ہیں جو لکیر عبور کرنے کی کوشش میں ہیں۔
امریکی انٹیلی جینس کے جائزے میں کہا گہا ہے کہ ’’ہم متعدد ممالک کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ ان کوششوں میں سیاسی شخصیات کے لیے لابنگ اور منتخب ہونے کی صورت میں ان سے مفادات کے حاصل کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔‘‘
اس رپورٹ کے لیے میشا کومادوسکی نے معاونت کی ہے۔