رسائی کے لنکس

امریکی انتخابات: غزہ تنازع مسلم ووٹرز کی رائے کس طرح تبدیل کر رہا ہے؟


  • غزہ جنگ نے مسلم ووٹنگ بلاک کو متحد یا تقسیم کیا ہے جو 35 لاکھ سے زائد مسلم امریکیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
  • کئی جائزوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ غزہ جنگ کے باعث ڈیموکریٹس کے لیے مسلمانوں کی حمایت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
  • کئی مسلم ووٹر اسرائیل سے متعلق ٹرمپ اور کاملا کے مؤقف سے نالان ہیں اور تھرڈ پارٹی امیدواروں کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
  • رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق غزہ جنگ مسلم ووٹرز کی ترجیحات میں سرِ فہرست ہے۔

گزشتہ 30 برس سے مسلم ووٹر سینزل شیفر ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ہیں اور تسلسل سے ہر پرائمری، وسط مدتی اور صدارتی الیکشن میں اسی جماعت کے امیدواروں کو ووٹ دیتی آرہی ہیں۔

لیکن رواں سال نومبر میں ہونے والے الیکشن میں وہ ڈیموکریٹک پارٹی سے اپنا یہ دیرینہ تعلق ختم کر دیں گی۔ شیفر جیسے مسلم امریکی ووٹرز کے لیے اسرائیل اور حماس کی جنگ روکنا اولین ترجیح ہے۔

نارتھ ورجینیا سے تعلق رکھنے والی افغان مسلم ٹیک ایگزیکٹو شیفر بائیڈن اس تنازع سے متعلق بائیڈن حکومت کے طرزِ عمل سے ناخوش ہیں اور اپنا ووٹ تھرڈ پارٹی امیدوار کو دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

ایک انٹرویو میں شیفر کا کہنا تھا کہ ’’ایک امریکی ووٹر کے طور پر میرے لیے شاید یہ سب سے مشکل فیصلہ ہوگا۔‘‘

شیفر تنہا ایسا نہیں سوچتیں۔ لگ بھگ گیارہ ماہ سے جاری غزہ جنگ نے روایتی ڈیموکریٹک ووٹنگ بلاک کو متحد یا تقسیم کیا ہے جو 35 لاکھ سے زائد مسلم امریکیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔

جہاں ایک جانب مسلم ووٹرز غزہ جنگ کو اہم ترین مسئلہ سمجھتے ہیں وہیں امیدواروں سے متعلق ان کی آرا تقسیم ہیں کیوں کہ ایک بڑی تعداد میں یہ ووٹر دونوں بڑی پارٹیوں کے نامزد امیدواروں کے اسرائیل کی حمایت کے مؤقف سے ناراض ہیں اور تھرڈ پارٹی آپشن کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

کونسل آن امیرکن اسلامک ریلیشنز (کیئر) کے 25 تا 29 اگست کے دوران کرائے گئے ایک سروے کے مطابق نائب صدر کاملا ہیرس اور اسرائیل کے پر زور ناقد گرین پارٹی کے امیدوار جل اسٹین کو 29، 29 فی صد کی حمایت حاصل ہے۔

ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرنے والے 11 فی صد ہیں اور تھرڈ پارٹی کے دیگر دو امیدواروں کی حمایت 10 فی صد بھی کم ہے جب کہ 16 فی صد کسی فیصلے پر نہیں پہنچے ہیں۔

یہ سروے انتخابی دوڑ کے متعلق اس سے قبل کیے گئے جائزوں کا تسلسل ہے اور اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ غزہ جنگ کے باعث ڈیموکریٹس کے لیے مسلمانوں کی حمایت میں کس طرح کمی واقع ہوئی ہے۔

سال 2020 کے انتخابات میں جیتنے والے صدر بائیڈن کو 65 مسلم ووٹ ملے تھے۔ رواں برس اس حمایت میں واضح کمی واقع ہوئی کیوں کہ سات لاکھ ڈیموکریٹک پرائمری ووٹرز میں سے سوئنگ اسٹیٹس میں زیادہ تر مسلمانوں نے بائیڈن کو ووٹ نہیں دیا۔

ایسے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد کسی تیسرے امیدوار کے بارے میں سوچ رہی ہے یا ووٹ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔

ایک مسلم ریسرچ گروپ انسٹی ٹیوٹ فور وشل پالیسی اینڈ انڈرسٹینڈنگ(آئی ایس پی یو) نے جولائی میں ایک سروے کرایا تھا جس میں انہیں ’سوئنگ مسلم ووٹرز‘ نام دیا گیا تھا۔

ادارے کے مطابق غزہ تنازع سے متعلق ان ووٹرز کے تحفظات سے ہم آہنگ پالیسیز کے ذریعے ان کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے۔

آئی ایس پی یو کے ڈائریکٹر ریسرچ سحر سیلود کے مطابق جو بھی امیدوار غزہ میں جاری جنگ سے متعلق پالیسی میں تبدیلی اور جنگ بندی سے متعلق موقف ایسے پہلو ہیں جو امیدواروں سے متعلق مسلم ووٹرز کے انتخاب پر اثر انداز ہوں گے۔

صدارتی انتخاب میں تین ماہ سے بھی کم کا عرصہ باقی ہے اور تا حال یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ ’سوئنگ مسلم ووٹرز‘ کسی کی حمایت کا فیصلہ کریں گے۔

فلسیطینوں سے متعلق کاملا ہیرس کے موقف کو بائیڈن کے مقابلے میں زیادہ ہمدردانہ تصور کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم ووٹرز میں ان کی حمایت صدر بائیڈن سے زیادہ ہے۔

لیکن ایکٹیوسٹ اس سے بڑھ کر چاہتے ہیں۔ وہ جنگ بندی اور اسرائیل پر اسلحے کی پابندیوں کے لیے زور دے رہے ہیں۔

ریاست وسکونسن سے تعلق رکھنے والے ایک مندوب رومن فرٹز کا کہنا ہے کہ ’’مجھے نہیں معلوم کے اظہارِ ہمدردی سے ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ لیکن پالیسی سے ضرور ووٹ ملیں گے۔‘‘

ان کے مطابق ہیرس جنگ بندی اور ہتھیاروں پر پابندی کے بغیر نومبر میں وہ ووٹ حاصل نہیں کر پائیں گی جن کی انھیں ضرورت ہے۔

کاملا ہیرس اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی کے مطالبے کی مخالف ہیں البتہ جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کی حمایت کرتی ہیں۔

ہیرس والز کمپین کے ترجمان نے وی او اے کے سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’ نائب صدر ہیرس اس وقت زیرِ غور غزہ میں مستقل جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کی حامی ہیں۔‘‘

حالیہ مہینوں میں ہیرس کی کمپین نے کمیونٹی سے اپنے رابطے بڑھائے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کمپین مینیجر جولی شاویز روجریگز نے مشی گن میں عرب اور یہودی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔

ہیرس کمپین کے ترجمان کے مطابق ہیرس فلسیطینی، مسلم، اسرائیلی اور یہودی کمیونٹیز سے ملاقاتیں جاری رکھیں جس انداز میں وہ بطور نائب صدر ان سے ملتی رہی ہیں۔

ری پبلکن امیدوار ٹرمپ کے مسلم کمیونٹی سے رابطے اور میل جول بظاہر محدود ہے۔ ٹرمپ حکومت کے اعلیٰ عہدے دار اور ٹرمپ کے داماد رواں برس کے آغاز میں مشی گن کے عرب رہنماؤں سے ملے تھے۔

ٹرمپ وینس مہم کے ترجمانوں نے اس معاملے سے متعلق تبصرے کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

ہیرس کے حامی

نارتھ ورجینیا سے تعلق رکھنے والے آئی ٹی پروگرام مینیجر عارف خان کے نزدیک صدارتی الیکشن ’کم برے کے انتخاب‘ کا معاملہ ہے۔

غزہ تنازع نے سیاست میں عارف خان کی دلچسپی بڑھا دی ہے اور ان کے بقول وہ اپنے دو نوجوان بیٹوں کے ساتھ فلسطینیوں کی حمایت میں نکلنے والی ریلیوں میں شریک ہونے لگے ہیں۔

عارف خان کہتے ہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے کبھی کسی احتجاج میں شرکت نہیں کی تھی۔

ان کے مطابق وہ اپنے امیدوار سے چاہتے ہیں کہ وہ اسرائیل پر ان کے بقول ’نسل کشی‘ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔ اسرائیل ایسے تمام الزامات کی تردید کرتا ہے۔

عارف خان کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک کاملا ہیرس متوازن طرز فکر کی حمایت کریں گی۔

ٹرمپ کے حامی

دیگر کے نزدیک اسرائیل سے متعلق ہیرس اور ٹرمپ کا مؤقف زیادہ مختلف نہیں ہے۔ واشنگٹن میں ایک ریستوراں چلانے والے سمیع خان کے خیال میں مسلم ووٹرز کا ’سب سے بڑا ایشو‘ غزہ جنگ ہے لیکن انہیں اس بارے میں امریکہ کی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں، چاہے الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس بہت زیادہ آپشنز نہیں ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ الیکشن کون جیتتا ہے یہ شاید حکومت کی پالیسی ہے جو جاری رہے گی۔

سمیع خان سمجھتے ہیں کہ اسرائیل پر امریکی پالیسی تبدیل ہونا ممکن نہیں ہے اس لیے وہ ٹرمپ کو ووٹ دیں گے کیوں کہ وہ ان کے بقول صدر ٹرمپ کے پہلے دور کی معاشی پالیسیاں اچھی تھیں۔

سمیع خان کہتے ہیں کہ معیشت بہت اہم ہے اور اگر ٹرمپ جیت جاتے ہیں تو یہ معیشت کے حق میں بہت اچھا ہوگا۔

کئی ریستوراں چلانے والے سمیع خان مسلمانوں میں سے لگ بھگ ایک تہائی ایسے ووٹرز میں شامل ہیں جو ری پبلکن پارٹی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ سب ٹرمپ کے حامی نہیں ہیں لیکن رائے عامہ کے بعض جائزوں کے مطابق ان ووٹرز میں ٹرمپ کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔

امریکی مسلم کمیونٹی میں مسائل اور ایشوز سے متعلق تنوع پایا جاتا ہے۔ غزہ ان کی اولین ترجیح ہے لیکن ساتھ ہی یہ معیشت، روزگار، امیگریشن اور ماحولیات جیسے ایشوز پر بھی فکر مند ہیں۔

سمیع خان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ایک بزنس میں ہیں اور جانتے ہیں کہ معیشت کو کس طرح ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ بہت سی کاروباری مراعات بھی دیتے ہیں۔

رائے بدلنے والے

ری پبلکن پارٹی کی جانب جھکاؤ رکھنے والے مسلمان سابق صدر ٹرمپ کے ان دعوؤں کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے دور میں دنیا زیادہ پرُ امن اور محفوظ تھی۔ حقائق کی تصدیق کرنے والے اس دعوے کی درستی پر سوال اٹھاتے ہیں۔

ورجینیا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر راشد چھوٹانی کا کہنا ہے کہ سب کچھ درست سمت میں چل رہا تھا لیکن اچانک سب کچھ بکھرنا شروع ہوگیا۔

چھوٹانی ماضی میں ری پبلکن کو ووٹ دیتے آئے تھے۔ لیکن حالیہ انتخابات میں انہوں نے ڈیموکریٹک امیدوار کو ووٹ دیا اور ایک بار پھر اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کر رہے ہیں۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز معالج راشد چھوٹانی کے نزدیک حالیہ برسوں میں ڈیموکریٹس کے دائیں بازو کی پالیسیوں کی جانب جھکاؤ پر ان کے تحفظات تھے تاہم غزہ تنازع سے متعلق بائیڈن کا طرز عمل اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا۔

چھوٹانی کہتے ہیں کہ ’’مجھے توقع تھی کہ بائیڈن اس آفت کو روک لیں گے۔ وہ فلسطین سے متعلق منصفانہ رویہ رکھیں گے۔ وہ کہتے رہے کہ ہم اس بارے میں کچھ کریں گے لیکن انہوں نے عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔‘‘

چھوٹانی اس بار ٹرمپ کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن کئی دیگر ایسے ہیں جو ابھی بھی گومگوں کی کیفیت میں ہیں اور کون سی پارٹی انہیں اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے؟ یہ بھی اب تک یقینی نہیں۔

بعض مندوبین اور ماہرین کے مطابق غزہ میں جنگ بندی مسلم ووٹرز کو ہیرس کی حمایت کی جانب لے جا سکتی ہے۔

آئی پی یو کے سروے کے مطابق 91 فی صد ’سوئنگ مسلم ووٹرز‘ جنگ بندی کے حامی امیدوار کی حمایت کریں گے۔

لیکن جنگ بندی کے باوجود، کئی ووٹرز ممکنہ طور پر تھرڈ پارٹی امیدواروں کی جانب متوجہ ہوسکتے ہیں یا ممکن ہے کہ الیکشن کے دن گھر ہی بیٹھے رہیں، لیکن مسلم ووٹ بہرحال تقسیم ہے۔

بعض کو یہ خدشہ بھی ہے کہ بے یقینی کی صورت حال 35 لاکھ نفوس پر مشتمل مسلم کمیونٹی کے سیاسی رسوخ کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔

تاہم چھوٹانی اس میں ایک امید افزا پہلو دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک متحد ہوکر آپ بڑا فرق پیدا کرسکتے ہیں لیکن یہ جمہوریت کے ارتقا کا حصہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم جیسے جیسے ارتقا کرتے ہیں تو صورتِ حال سے متعلق ہماری رائے تبدیل ہوتی ہے۔ ہم مختلف سمتوں جاسکتے ہیں لیکن میرے خیال میں یہ کوئی بری بات نہیں۔‘‘

اس مضمون کے لیے وی او کی ڈیوا، ترکی اور اردو سروسز نے بھی معاونت کی ہے۔

XS
SM
MD
LG