رسائی کے لنکس

امریکہ کے خطے میں جنگی طیارے بھیجنے کے اعلان کے بعد ایرانی فضائیہ کی مشقیں


Iran Air Force Drill
Iran Air Force Drill

امریکہ خلیج فارس کے خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کو تجارتی جہازوں کو پکڑنے سے باز رکھنے کے لیے اپنے مزید لڑاکا طیارے بھیج رہا ہے، جبکہ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق، ایران نے بھی اتوار کے روز سے ملک کے وسطی حصے میں اپنی سالانہ فضائی مشقیں شروع کر دی ہیں۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے بتایا ہے کہ ایرانی فضائیہ کے گیارہ اڈوں نے مشقوں میں حصہ لیا۔ نیوز ایجنسی نے بتایا کہ فوجی لحاظ سے اہم آبنائےہرمز کے دہانے پر واقع جنوبی بندرگاہ بندر عباس کا فضائیہ کا اڈہ بھی مشقوں میں سرگرمی سے حصہ لے رہا ہے۔

امریکہ کا لڑاکاا جنگی طیاری ایف سولہ۔ فائل فوٹو
امریکہ کا لڑاکاا جنگی طیاری ایف سولہ۔ فائل فوٹو

آبنائے ہرمز،خلیج فارس میں داخلے کا ایک تنگ راستہ ہے، جہاں سےدنیا کو فراہم کیا جانے والا 20 فیصد تیل گزرتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوے سے زیادہ لڑاکا طیارے، بمبار اور ڈرونز ان مشقوں میں حصہ لیں گے۔

ایران کی فضائیہ کے سربراہ جنرل حامد واحدی نے کہا کہ مشق کا پیغام، خطے میں دوستی، امن اور سلامتی کا ہے۔ اور انہوں نے کہا کہ پائیدار سیکیورٹی، علاقائی سطح پر تعلقات بہتر بنانا، پر امن بقائے باہمی اور فضائی سرحدوں کا دفاع ایجنڈے پر ہے۔

خیال رہے کہ امریکہ اضافی جنگی بحری جہاز اور ہزاروں میرینز مشرق وسطیٰ بھیج رہا ہے تاکہ وہاں تجارتی بحری جہازوں کو قبضے میں لینے کی ایرانی کوششوں کے تناظر میں سیکیورٹی میں اضافہ کیا جا سکے۔

ایران نے رواں ماہ کے اوائل میں آبنائے ہرمز کے قریب دو آئل ٹینکرز کو قبضے میں لینے کی کوشش کی تھی، اوران میں سے ایک پر فائر نگ بھی کی تھی۔

امریکی عہدہ داروں کے مطابق وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعرات کو 'یو ایس ایس باتان ایمفیبیئس ریڈینس گروپ' اور '26ویں میرین ایکسپیڈیشنل یونٹ' کو خلیجی خطے میں تعینات کرنے کی منظوری دی ہے۔

ریڈ ینس گروپ تین بحری جہازوں پر مشتمل ہے جس میں باتان بھی شامل ہے، جو ایمفیبیئس حملہ آور بحری جہازہے۔ ایک مہماتی یونٹ عام طور پر تقریباً 2500 میرینز پر مشتمل ہوتا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں امریکی لڑاکا طیاروں کی موجودگی کا مقصد آبی گزرگاہ سے گزرنے والے تجارتی بحری جہازوں کو فضائی تحفظ فراہم کرنا اور ایران کے لیے رکاوٹ کے طور پر علاقے میں فوج کی موجوگی کو بڑھانا ہے۔

اس سے قبل امریکی سینٹرل کمانڈ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں بحری جہازوں کی تعیناتی "خطے میں مزید لچک اور سمندری اہلیت فراہم کرے گی۔" اعلان میں بحری جہازوں کا نام نہیں بتایا گیا، لیکن امریکی عہدہ داروں نے فوجیوں کی نقل و حرکت پر بات کرنے کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تعیناتی میں شامل یونٹوں کی تفصیل دی ہے۔

مشرق وسطیٰ بھیجے جانے والے'ریڈ ینس گروپ' میں باتان کے ساتھ یو ایس ایس میسا وردے اور ’یو ایس ایس کارٹر ہال‘ بحری جہاز بھی شامل ہیں۔

یہ ریڈینس گروپ اس ماہ کے شروع میں ورجینیا کے نارفوک سے روانہ ہوا ہے۔ تاہم جمعرات کو یہ واضح نہیں تھا کہ آیا تینوں بحری جہاز خلیجی خطے کے لیے روانہ کیے گئے ہیں۔

امریکہ نے حالیہ ہفتوں میں متعدد F-35 اور F-16 لڑاکا طیاروں کو خطے میں بھیجنے کے فیصلوں کے بعدنئی تعیناتی کی گئی ہے۔

یو ایس ایس میسا وردے
یو ایس ایس میسا وردے

سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ایرک کوریلا نے کہا کہ اضافی فورسز "منفرد صلاحیتیں فراہم کرتی ہیں، جو خطے میں ہمارے شراکت دار ممالک کے ساتھ، بین الاقوامی تجارت کے آزادانہ بہاؤ کو مزید تحفظ فراہم کرتی ہیں اور قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھتی ہیں، اور خطے میں ایران کی عدم استحکام پیدا کرنے والی کی سرگرمیوں کو روکتی ہیں۔"

امریکہ نے خلیج کی اسٹرٹیجک آبنائے ہرمز میں بحری جہازوں کو ایرانی قبضے سے بچانے کے لیے ایف سولہ جنگی طیارے بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ایک سینئر دفاعی عہدیدار نےگزشتہ ہفتے پینٹاگون کے نامہ نگاروں کو اس سلسلے میں بتایا تھا کہ امریکہ اس ہفتے کے آخر میں خلیجی علاقے میں جنگی طیاروں کے استعمال کو بڑھا دے گا۔ خطے میں پہلے ہی A-10 حملہ آور امریکی لڑاکا طیارے ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے گشت کر رہے ہیں۔

نام نہ ظاہر کر نے کی شرط پر دفاعی اہلکار نے بتایا تھاکہ ایف سولہ طیارے آبی گزرگاہ سے گزرنے والے بحری جہازوں کو فضائی تحفظ فراہم کریں گے اور علاقے میں عسکری موجودگی ایرانی کارروائیوں کو روکنے کا اظہار ہوگی۔

اہلکار نے کہا تھا کہ واشنگٹن کو مشرق وسطیٰ میں ایران، روس اور شام کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر بھی تشویش ہے۔

اس رپورٹ میں کچھہ معلومات خبر رساں ادارے اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG