بھارت کی انتشار کی شکار ریاست منی پور میں ہجوم کی جانب سے دو خواتین کو برہنہ کر کے سڑک پر گشت کرانے کی ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد حکومت اور سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مذمتی بیانات اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق منی پور میں ہجوم نے دو خواتین کو پہلے برہنہ کیا جس کے بعد اوباش نوجوان ان سے بدتمیزی کرتے رہے۔ بعدازاں خواتین کو گھسیٹ کر کھیتوں میں لے جایا گیا جہاں مبینہ طور پر انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
'میرا دل درد اور غصے سے بھرا ہوا ہے'
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو تقریب سے خطاب میں غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منی پور میں بیٹیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو کبھی نہیں بھولیں گے اور ملزمان کو نہیں چھوڑا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ بھارت کے ایک ارب 40 کروڑ عوام کے لیے شرمساری کا باعث ہے۔
بھارتی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ وہ تمام ریاستوں کے وزرائے اعلٰی پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی ریاستوں میں خواتین کا تحفظ یقینی بنائیں۔
وزیرِ اعظم مودی بولے کہ "میرا دل اس واقعے پر درد اور غصے سے بھرا ہوا ہے۔"
بھارتی نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے مطابق منی پور میں میتی اور کوکی نسلی گروہوں کے درمیان مئی میں پیش آنے والے تنازعے کے بعد چار مئی کو خواتین کو برہنہ کرنے کا واقعہ پیش آیاتھا جس کی ویڈیو اب وائرل ہو رہی ہے۔
منی پور میں ان دونوں نسلی گروہوں میں جھگڑے کے دوران اب تک 120 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ہزاروں نقل مکانی کر چکے ہیں۔
خواتین کی بے حرمتی کی ویڈیو پر بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندراچند نے بھی کہا ہے کہ یہ واقعہ قانون کی سنگین ناکامی کے مترادف ہے اور یہ ناقابلِ برداشت ہے۔
چیف جسٹس نے حکومت کو ہدایت کی کہ معاملے کا نوٹس لیا جائے اور علاقے میں خواتین کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
بالی وڈ اداکار اکشے کمار نے بھی منی پور واقعے کی ویڈیو پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزمان کو سخت سزا دینی چاہیے تاکہ دوبارہ کوئی اس طرح کے خوف ناک کام کا سوچ بھی نہ سکے۔
منی پور کی پولیس کے مطابق اس واردات کے کلیدی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کا نام ہیراداس ہے اور اس کی عمر 32 سال ہے۔
وزیرِ اعلیٰ این بیرن سنگھ نے کہا کہ ملزم کو سزائے موت دینے پر غور کیا جائے گا۔ کوکی قبائل نے وزیرِ اعلیٰ بیرن سنگھ اور وزیرِ اعظم نریندر مودی سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
متاثرہ خواتین کوکی قبائل سے متعلق بتائی جاتی ہیں۔ یہ اقلیتی برادری عیسائی مذہب کی پیروکار ہے جب کہ اکثریتی میتی برادری مذہبی طور پر ہندو ہے۔
پولیس میں درج شکایت کے مطابق واردات کے روز یعنی چار مئی کو 800 سے 1000 افراد پر مشتمل ایک ہجوم جو کہ جدید ہتھیاروں سے لیس تھا، بی پینوم گاؤں میں داخل ہوا۔ اس نے لوٹ مار کی اور گھروں کو نذر آتش کر دیا۔ ان لوگوں کا تعلق میتی تنظیموں سے بتایا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس حملے کے دوران گاؤں کے دو مرد اور تین خواتین نے بھاگ کر جنگل میں پناہ لی۔ بعد میں پولیس نے انھیں ریسکیو کیا اور وہ انھیں پولیس اسٹیشن لے کر آئی۔ مشتعل افراد نے ان لوگوں کو اغوا کر لیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اغوا کاروں نے ان میں سے ایک مرد کو ہلاک کر دیا اور تینوں خواتین کو کپڑے اتارنے پر مجبور کیا۔ ان میں سے ایک 20 سالہ خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور جب اس کے بھائی نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو اسے ہلاک کر دیا گیا۔
'کپڑے نہیں اُتارو گے تو مار دیں گے'
اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق متاثرین میں سے ایک خاتون نے بات چیت میں کہا کہ ہجوم میں پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔ ان کے مطابق پولیس نے ہمیں مشتعل بھیڑ کے حوالے کردیا تھا۔
میڈیا ویب سائٹ ’اسکرول ڈاٹ ان‘ کے مطابق متاثرین میں سے ایک 40 سالہ خاتون نے اس کے نمائندے سے گفتگو میں کہا کہ حملہ آوروں نے ان لوگوں کے سامنے ان کے ایک پڑوسی اور اس کے بیٹے کو ہلاک کر دیا۔
ان کے مطابق انہوں نے ہم سے کہا کہ اگر کپڑے نہیں اتارو گے تو تمہیں بھی ہلاک کر دیں گے۔ ہم نے اپنی جان بچانے کی خاطر ان کا مطالبہ منظور کر لیا۔ اس دوران وہ لوگ ہم پر جنسی تشدد کرتے رہے۔
وزیرِ اعلیٰ کے سیکورٹی مشیر کلدیپ سنگھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوری طور پر اس معاملے کی رپورٹ درج کی گئی۔ ہم نے قصورواروں کی شناخت کے لیے 12 ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔
پولیس نے کہا کہ متاثرہ خواتین نے کوئی شکایت درج نہیں کرائی ہے۔ ہم ان کی تلاش کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں ان کے بیانات بہت اہم ثابت ہوں گے۔
انسانی حقوق تنظیموں کی مذمت
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس واردات کی مذمت کی ہے۔ اس نے مذکورہ ویڈیو کے حوالے سے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ یہ صدمہ انگیز واقعہ منی پور میں ہونے والے تشدد کی سنگینی اور شرپسندوں کو ملی چھوٹ کی یاد دلاتا ہے۔
اس نے مزید کہا کہ مئی میں تشدد برپا ہونے کے بعد انتظامیہ نے انٹرنیٹ پر پابندی عاید کر دی جو آج بھی جاری ہے۔ جس کی وجہ سے منی پور میں انسانی حقوق کی بھیانک خلاف ورزیوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔
اس نے مطالبہ کیا کہ جنسی تشدد کے تمام الزامات کی مؤثر، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ جانچ کی جائے تاکہ متاثرین کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ منی پور میں فوری طور پر انٹرنیٹ خدمات بحال کی جائیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم دہلی کی ایک تنظیم ’آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسو سی ایشن‘ (اے آئی ڈی ڈبلیو اے) نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
تنظیم کی جنرل سیکریٹری مریم دھاولے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ منی پور میں تین مئی سے ہی تشدد جاری ہے لیکن وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ خاموش ہیں۔ اب جب کہ ایک بھیانک واردات کی ویڈیو سامنے آگئی ہے تو انھیں اب تو بولنا چاہیے۔
انہوں نے مودی حکومت پر نفرت کی سیاست کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس کی وجہ سے عام لوگوں کے اندر کا وحشی پن اب ظاہر ہونے لگا ہے۔ اس سیاست کے خلاف پورے ملک میں زبردست غصہ ہے۔ ہم اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔
یاد رہے کہ مودی حکومت نفرت کی سیاست کرنے کے الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
منی پور میں تنازع کیا ہے؟
منی پور میں نسلی فسادات ریاست کی اکثریتی آبادی میتی اور پہاڑوں پر آباد قبیلے کوکی کے درمیان ہو رہے ہیں۔
کوکی قبائل کو طویل عرصے سے یہ خدشہ ہےکہ میتی برادری کو ان علاقوں میں بھی زمینیں حاصل کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے جو فی الحال کوکی قبیلے سمیت دیگر قبائلی گروہوں کے لیے مختص ہیں۔
میتی کمیونٹی منی پور ریاست کی کل آبادی کا 53 فی صد ہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ انہیں میانمار اور بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں آنے والے تارکینِ وطن کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت میتی کمیونٹی کو منی پور کے پہاڑی علاقوں میں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔
منی پور کی غیر قبائلی آبادیوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں قبائل کا درجہ دیا جائے تاکہ ان کی آبائی زمین، ثقافت اور شناخت کو قانونی تحفظ مل سکے۔ دوسری جانب اس مطالبے کے خلاف منی پور کے قدیم قبائل کی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔
بھارت کی بی جے پی کی مرکزی حکومت نے بھی دونوں قبائل میں امن مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کی تھی اور مرکزی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے بھی ریاست کا دورہ کیا تھا تاہم یہ اقدامات قیامِ امن میں معاون ثابت نہیں ہوئے۔