رسائی کے لنکس

وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مجھے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا، اشرف غنی


سابق صدر اشرف غنی۔ 18 اگست 2021ء (فائل فوٹو)
سابق صدر اشرف غنی۔ 18 اگست 2021ء (فائل فوٹو)

سابق افغان اور امریکی حکام کے بیانات کی نفی کرتے ہوئے، افغانستان کے سابق صدر نے کہا ہے کہ ان کے مشیر نے انھیں چند ہی منٹوں کے اندر یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہا تھا کہ آیا وہ دارالحکومت کابل چھوڑنے پر تیار ہیں؟ یہ وہ وقت تھا جب 15 اگست کو طالبان، دارالحکومت کا کنٹرول سنبھالنے کی دستک دے رہے تھے۔

بی بی سی کے ساتھ ایک غیر معمولی انٹرویو میں جمعرات کے روز اشرف غنی نے کہا کہ اس سے پہلے کبھی ان کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ایسا بھی کوئی لمحہ آئے گا جب وہ ملک چھوڑنے کا سوچ بھی سکتے ہیں۔

غنی نے اس بات کی تردید کی کہ اقتدار کی پرامن منتقلی سے متعلق کسی قسم کی کوئی بات چیت جاری تھی۔ انھوں نے ان الزامات کی بھی تردید کی کہ جاتے ہوئے وہ نقدی کا بے شمار خزانہ اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

اس ماہ کے اوائل میں سابق صدر حامد کرزئی نے ایسو سی ایٹڈ پریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اشرف غنی کے فرار کے نتیجے میں طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات میں کوئی سمجھوتہ طے کرنے کا موقع ضائع ہوگیا تھا۔

ایسے میں جب 20 سالہ لڑائی کے خاتمے پر امریکہ اور نیٹو کی افواج انخلا کے آخری مراحل میں تھیں، پندرہ اگست کو غنی کے ملک سے فوری فرار ہونے کے نتیجے میں شہر کا کوئی پرسان حال نہیں تھا

اشرف غنی نے بی بی سی ریڈیو کو بتایا کہ ''اس روز صبح مجھے شائبہ تک نہیں تھا کہ شام گئے میں ملک چھوڑ کر چلا جاؤں گا''۔ غنی کے اس بیان سے اس تاثر کی نفی ہوتی ہے جو دیگر ذرائع سے اب تک سامنے آیا ہے۔

سابق صدر اشرف غنی (فائل فوٹو)
سابق صدر اشرف غنی (فائل فوٹو)

حامد کرزئی نے کہا تھا کہ اقتدار کی پر امن منتقلی کے بارے میں حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری تھے، جس میں وہ خود اور امن کونسل کے سربراہ عبدا للہ عبداللہ شامل تھے، تاکہ آخری لمحات میں طالبان کے ساتھ سمجھوتہ طے پاجائے، جب کہ طالبان نے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ دارالحکومت سے باہر رہیں گے۔ لیکن، یہ سمجھوتہ اس لیے نہیں ہوسکا کیونکہ اشرف غنی اچانک ملک سے فرار ہوگئے۔

کرزئی نے کہا تھا کہ اس پر انھوں نے وزیر دفاع بسم اللہ خان، وزیر داخلہ اور پولیس کے سربراہ کو فون کیے اور معلوم ہوا کہ سب کے سب دارالحکومت سے چلے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تب ہی انھوں نے طالبان کو کابل میں داخل ہونے کی دعوت دی، ''تاکہ عوام کو تحفظ فراہم ہو، شہر اور ملک افراتفری سے بچ جائے، اور ایسے کسی عناصر کو یہ موقع نہ ملے کہ ملک میں لوٹ مار ہو اور دوکانوں کو لوٹا جائے''۔

لیکن اشرف غنی نے سابق چیف آف ڈیفنس اسٹاف، جنرل سرنک کارٹر کے ساتھ ریڈیو انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے اس لیے کابل چھوڑا تاکہ کسی قسم کی تباہی سے بچا جا سکے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ طالبان کے دو متحارب دھڑے شہر کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے،جو کابل میں داخل ہونے کے بعد کنٹرول کے حصول کی لڑائی کے عزائم رکھتے تھے۔تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق،غنی کے بیان کردہ متحارب طالبان دھڑوں سے متعلق دعوے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

چند روز قبل جب باغی گروپ کابل کی جانب پیش قدمی کر رہا تھا اس وقت افغان حکومت کی افواج ہتھیار ڈال رہی تھیں جس کے نتیجے میں طالبان کا راستہ روکنے کے لیے کوئی موجود نہیں تھا۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سرگرم امدادی کارکنان نے، جو اُس وقت سرزمین پر موجود تھے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان نے آگے بڑھ کر ان کی عمارتوں کے احاطوں کو تحفظ فراہم کرنے کا اقدام کیا۔

تاہم، طالبان کی جانب سے اقتدار پر کنٹرول کے وقت خوف کا ماحول برپا تھا، اور لوگوں میں یہ سوچ موجود تھی کہ ملک سے باہر نکلا جائے، حالانکہ ملک شدید غربت اور معاشی بدحالی میں جکڑا ہوا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 20 سال تک امریکہ اور بین الاقوامی برادری کی جانب سےافغان حکومتوں کو اربوں ڈالر پر مشتمل امداد دی جاتی رہی تھی۔

غنی نے ان عام الزامات کو مسترد کیا کہ جاتے ہوئے وہ چوری کردہ بیش بہا نقدی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس ضمن میں افغانستان کی تعمیر نو سے وابستہ امریکہ کے خصوصی انسپیکٹر جنرل،جان سوپکو اس وقت ان الزامات کی چھان بین کر رہے ہیں۔

انٹرویو میں اشرف غنی نے اس بات پر کچھ نہیں کہا کہ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے کچھ ہی ہفتے قبل افغان فوج تیزی کے ساتھ کیوں تحلیل ہوتی جا رہی تھی۔ تاہم، انھوں نے الزام لگایا کہ 2020ء میں امریکہ کی جانب سے طالبان کے ساتھ کیے گئے سمجھوتے کے نتیجے میں ان کی حکومت کو یہ دن دیکھنا پڑے۔ اس سمجھوتے میں یہ طے تھا کہ امریکہ اپنی طویل ترین لڑائی ختم کر دے گا اور امریکہ اور نیٹو افواج کے حتمی انخلا سے متعلق شرائط طے کی گئی تھیں۔ معاہدے میں یہ بھی طے تھا کہ طالبان کے 5000 قیدیوں کو رہا کیا جائے گا؛ جس کے نتیجے میں، غنی کے بقول، سرکش فورس کی طاقت میں اضافہ ہوا

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG