سابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت، زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ دوحہ میں ہونے والے سمجھوتے سے قبل کئی برسوں سے لڑائی میں سبقت حاصل نہیں ہو رہی تھی، فوجی معاملات حوصلہ افزا نہیں تھے، طالبان مضبوط ہوتے جا رہے تھے جب کہ امریکہ اس بات کا قائل ہو چکا تھا کہ اس مہنگی ترین لڑائی کو جاری نہیں رکھا جا سکتا۔
ان خیالات کا اظہار زلمے خلیل زاد نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ ایشیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو چکا ہے اور امریکہ کو اس سے مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
بقول ان کے، اُس وقت صورت حال یہ تھی کہ افغانستان اس پیمانے کی دہشت گردی کا مرکز نہیں رہا تھا جیسا کہ پہلے ہوا کرتا تھا۔ صدر ٹرمپ نے مجھ سے کہا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم کسی ایسے معاہدے کے لیے بات چیت شروع کر سکیں جو اس بات کو یقینی بنائے کہ افغانستان ہمارے لیے ایسی جگہ نہ بنے جس سے امریکہ کو خطرہ لاحق رہے، بلکہ افغانوں کو بھی ساتھ بٹھایا جائے کہ وہ آپس میں ان باتوں کا کوئی سیاسی حل تلاش کرسکیں جن کا اب ہمیں فوجی حل نظر نہیں آتا۔
(اردو سروس کی مونا کاظم شاہ کے ساتھ زلمے خلیل زاد کے انٹرویو کے چند اقتباسات، سوال جواب کی صورت میں پیش ہیں)
سوال: مگر (دوحہ)مذاکرات کامياب تو نہ ہوئے؟
جواب: اس معاہدے نے پہلی بار افغانوں کے درمیان مذاکرات کے راستے کھولے اور افغان حکومت اور طالبان پہلی مرتبہ آمنے سامنے بيٹھے۔ ہمارے انخلا کے اٹھارہ مہينے سے زيادہ کے عرصے ميں طالبان نے ايک بھی امريکی فوجی ہلاک نہيں کيا۔ مذاکرات کی ناکامی کی وجہ فريقين کے درميان موجود خلا تھا، جس کی ذمہ داری ان فريقين پر جاتی ہے۔
سوال: آپ نے يہ بھی کہا کہ اشرف غنی نے معاہدے کی عدم تعميل کی۔ کيا اگر وہ اسکرپٹ کے ساتھ جڑے رہتے تو حالات مختلف ہوتے؟
جواب: بالکل! پہلے تو وہ معاہدے کے خلاف گئے اور پھر ان کے افغانستان سے فرار ہو جانے سے حالات مزيد بگڑ گئے۔
اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ اگر وہ ٹھہرتے تو کیا ہوتا۔ لیکن یقیناً یہ ایک بہترين موقع تھا۔ سب سے پہلے تو وہ ایک طویل عرصے سے امن معاہدے کی حمایت نہیں کررہے تھے۔ امن عمل کی منصوبہ بندی کرنے کے ليے وفد بھيجنے ميں بھی انہيں کافی وقت لگا۔ مذاکرات کے حساب سے قیدیوں کی رہائی کے لیے دس دن کے بجائے چھ ماہ کا عرصہ لگايا۔ پھر انہوں نے امريکی افواج کے انخلا کے بارے میں غلط اندازہ لگایا۔ اپنی فوجوں کی طاقت کے بارے ميں بھی انھوں نے غلط اندازہ لگايا اور پھر آخر کار جب کابل کا محاصرہ کیا جا رہا تھا تو اس وقت بھی ہم نے ایک معاہدہ تشکيل ديا، امریکی افواج اور طالبان کے کابل میں داخل نہ ہونے کا، جس سے طالبان نے اتفاق کیا۔ انہوں نے اس کا اعلان کیا۔ اور چیف آف اسٹاف نے بھی اس کا اعلان کیا۔ لیکن جس دن اس معاہدے کا اعلان ہوا، اسی دن اپنے اندرونی حلقے کے لوگوں کی مدد کے بغیر وہ افغانستان سے ازبکستان پھر یو اے ای فرار ہو گئے۔
سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ بین الاقوامی برادری بالآخر طالبان کی حکومت کو قبول کر لے گی اور اسے قانونی حیثیت دے گی؟
جواب: یہ طالبان پر بھی منحصر ہے۔ میرے خیال میں عالمی برادری، امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے، کیونکہ دوحہ معاہدے پر ابھی تک مکمل عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ اور دوحہ معاہدے میں ایک جامع حکومت تشکيل دينے کی بات کی گئی تھی اور بھی کئی مسائل ہيں جيسے وہ خدشات جو طالبان کو اپنے خلاف پابندیوں کے بارے میں ہیں۔ میرے خیال میں معاہدے کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے امریکہ اور دیگر ممالک کو طالبان کے ساتھ بیٹھنے کی ضرورت ہے، ان ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے جو بین الاقوامی برادری نے طالبان کے ساتھ معاہدے کی بنیاد پر کی تھيں۔ جہاں تک حکومت تسليم کرنے کی بات ہے تو عام طور پر "حکومتيں" نہيں بلکہ "ریاستيں" تسلیم کی جاتی ہیں۔
سوال: مگر اس وقت کيا بين الاقوامی برادری خاص طور پر امريکہ کے پاس اس معاملے ميں کوئی ليوريج ہے؟
جواب: طالبان چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر انہیں قبول کیا جائے، عزت دی جائے اور وہ چاہتے ہیں کہ طالبان رہنماؤں کے خلاف پابندیاں ہٹا دی جائیں۔ وہ پیسے تک رسائی چاہتے ہیں، وہ معاشی امداد چاہتے ہیں۔ ٹھیک ہے، اس سب کا مطلب ان لوگوں کو ليوريج ملتی ہے جو امداد فراہم کریں گے، ان لوگوں کے لیے جو پابندیاں ہٹائیں گے، ان لوگوں کے لیے جو بینک اکاؤنٹ کو غیر منجمد کر دیں گے اور پھر طالبان معمول کا ایک طویل مدتی تعلق بھی چاہتے ہيں۔۔ تو ليوريج تو ہے!
سوال: جامع حکومت کے معاملے پر ابھی تک کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ آپ مستقبل کے بارے میں کیا امید رکھتے ہیں؟
جواب: یہ بات اہم ہے کہ طالبان، میرے خیال میں، اکيلے افغانستان کے تمام مسائل حل نہیں کر سکتے۔ افغانستان ایک بہت متنوع جگہ ہے اور اس کے بہت سے معاملات سے تکنیکی مہارت رکھنے والے لوگوں کو نمٹنا پڑے گا جيسے صحت، تعلیم، مواصلات کی وزارتیں اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایک اور چیز، افغانستان جو نوے کی دہائی میں تھا اب ويسا نہيں رہا۔ نہ طالبان ویسے رہے، ملک بدل گیا ہے، اور دنیا بھی بدل چکی ہے۔
میں جانتا ہوں کہ موجودہ حالات ميں طالبان اپنے آپ کو اور اپنے لوگوں کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں، جنہوں نے پچھلے بیس سالوں کی اس جدوجہد کے دوران انکی حمايت کی اور اسکی بہت بڑی قیمت چکائی۔ لیکن انہیں اب مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے تاکہ ایک کامیاب افغانستان تشکيل ديا جا سکے جو خود کے اور دنیا کے ساتھ پرامن ہو۔
سوال: کیا پاکستان نے طالبان کی مدد کی يا نہيں کی؟
جواب: پہلی بات تو يہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اسے اس زاويے سے ديکھنا بہت اہم ہے۔ اور دوسرے، میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کا امن اور استحکام پاکستان کے لیے بہت اہم ہے اور یہ خطے کے لیے بھی اہم ہے۔ میرے خیال میں جنرل باجوہ نے مجھ سے کہا تھا کہ "ملک ترقی نہیں کرتے، خطے ترقی کرتے ہیں۔" اور صدر غنی بھی يہی کہا کرتے تھے کہ علاقائی رابطہ، تجارت اور ترقی بہت ضروری ہے۔
مثال کے طور پر ازبکستان سے مصنوعات کو پاکستان میں ملتان آنے میں اس وقت 26 دن لگتے ہیں، کیونکہ یہی ايک زمینی راستہ ہے۔ ایران کے راستے، پھر سمندر کے ذريعے کراچی اور پھر ٹرین میں۔ اگر افغانستان میں امن ہو اور نقل و حمل کے راستے کھلے ہو، مطلب ریلوے کا نظام ہو، مثال کے طور پر اگر ازبکستان سے مزار شریف، وہاں سے کابل، اور پھر پشاور کا ریلوے نظام بنایا جائے اور پھر پشاور سے آپ اسے پاکستان کے ٹرین سسٹم میں جوڑ ديں۔ اس میں صرف 26 گھنٹے لگیں گے۔ 26 دن بمقابلہ 26 گھنٹے! اس لیے وہ (پاکستان) وسطی ایشیائی رسائی کے لیے بہت بے چین ہے۔ افغانستان وسطی ایشیا اور پاکستان اور جنوبی ایشیا یا سمندر کے درمیان ایک قسم کا زمینی پل ہو سکتا ہے۔ تو مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اپنے افق کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ بعض اوقات آپکو صحیح حل تلاش کرنے کے لئے مسئلے کو اور بڑا کرکے ديکھنا پڑتا ہے۔
سوال: اسی زاوئے سے آپ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو اس مقام پر کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: ہاں۔ ٹھیک ہے میرا مطلب ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ امریکہ میں کچھ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان مدد کے لیے مزید کچھ اور کر سکتا تھا۔ ایسے بھی کچھ لوگ ہیں جو پيچھے مڑ کر پاکستان میں طالبان رہنماؤں کی موجودگی کو دیکھتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں اب آگے کی طرف دیکھنا ضروری ہے۔ خاص طور پر اس وقت جو صورتحال ہے میں نے بطور ايلچی اپنے دور میں پاکستان کی شموليت کو مستعدی سے برقرار رکھا اور پاکستان نے بھی مجھ سے کہا کہ وہ امن کے اس عمل میں تعاون کریں گے، کیونکہ وہ ہمیشہ سے اسے ہی بہتر حل سمجھتے تھے۔ وزیراعظم عمران خان سے لے کر جنرل باجوہ اور ديگر کا يہ يقين تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ اگر ہے تو صرف سیاسی حل ہے۔ اور انہيں اندازہ تھا کہ میں جس مشن کے ساتھ آیا ہوں وہ صحیح مشن ہے، کیونکہ انہوں نے بھی اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش تھی جيسے سیاسی مذاکرات۔ میرے خیال میں اب ہمیں مستقبل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں تھوڑا سا ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ خطہ سیکیورٹی کے مسائل پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتا رہا ہے۔ اب افق کو وسیع کرنے کا وقت آگيا ہے۔
سوال: آپ افغانستان کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: گزشتہ 40 سال سے افغانستان حالت جنگ میں ہے۔ لیکن کسی کو تو طویل مدتی نتائج دیکھنا ہوں گے۔ میں واقعی سمجھتا ہوں کہ افغانستان کا مستقبل اب بنیادی طور پر خود افغانوں کے ہاتھ میں ہے۔