افغانستان کے سابق صدرحامد کرزئی نے کہا ہے کہ طالبان نے افغان دارالحکومت فتح نہیں کیا؛ ''انھیں اندر آنے کی دعوت دی گئی تھی''۔
حامد کرزئی نے افغان صدر اشرف غنی کے عجلت میں فرار ہونے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی آبادی کو کسی خلفشار سے بچانے کے لیے، ''طالبان کو آنے کی دعوت دی گئی تھی''۔
ان کے الفاظ میں: ''اس کا مقصد یہ تھا کہ کہیں خلفشار جنم نہ لے، شہر کا نظام درہم برہم نہ ہو جائے یا یہ کہ ناپسندیدہ عناصر ملک میں لوٹ مار نہ مچائیں، دکانوں کو نہ لوٹیں''۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کو دیے گئے انٹرویو میں حامد کرزئی نے کہا کہ جب اشرف غنی فرار ہوئے، تو ان کی سیکیورٹی پر مامور اہل کار بھی چلے گئے۔ جب کرزئی نے وزیر دفاع بسم اللہ خان سے پوچھا کہ آیا وہ بھی کابل چھوڑ کر جانے والے ہیں اور حکومت کا کون سا عہدیدار کابل میں موجود ہے؟ معلوم ہوا کہ ان میں سے اب کابل میں کوئی بھی باقی نہیں رہا۔ یہاں تک کہ کابل پولیس کے سربراہ تک نے شہر چھوڑ دیا ہے۔
گیارہ ستمبر 2001ء میں امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے بعد جب طالبان کی پہلی حکومت کو شکست دی گئی، تب سے 13 برس تک کرزئی ملک کے صدر رہے۔ کرزئی نے کہا کہ ''میں تو کابل چھوڑ کر نہیں جاؤں گا''۔
وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتے ہیں۔ کرزئی نے کہا کہ غنی کے طیارے کی پرواز بھرنے کے بعد اب دھیان طالبان کے شہر میں داخل ہونے پر مرکوز ہو گیا۔ وہ اور حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ، عبداللہ عبداللہ نے دوحہ میں طالبان قیادت کے ساتھ سمجھوتہ طے کرنے کے لیے بات چیت کی تھی، جس میں کچھ شرائط کی بنیاد پر ملیشیا کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جانی تھی۔ اس سمجھوتے کو 14 اگست کو آخری شکل دی جانی تھی، جس سے ایک ہی دن بعد طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا۔
کرزئی اور عبداللہ نے صدر غنی سے ملاقات کی تھی اور وہ اس بات پر رضامند ہوئے کہ اگلے روز وہ اختیارات کی شراکت داری پر سمجھوتہ طے کرنے کے لیے 15 نکات پر مبنی فہرست لے کر دوحہ جائیں گے۔ اس وقت تک طالبان کابل کے مضافات میں ڈیرے ڈال چکے تھے۔ لیکن کرزئی نے کہا کہ قطر کی قیادت نے وعدہ کیا کہ جب تک یہ معاہدہ باقاعدہ طے نہیں ہوتا تب تک طالبان فورس شہر سے باہر رہے گی۔
کرزئی نے کہا کہ 15 اگست کی صبح وہ شرائط کی اس فہرست کے مسودے کو آخری شکل دے رہے تھےکہ دیکھا دارالحکومت میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ طالبان نے اقتدار سنبھال لیا ہے۔ کرزئی نے دوحہ فون کیا۔ انھیں پتا چلا کہ طالبان شہر کے اندر داخل نہیں ہوں گے۔
دوپہر کو طالبان نے ٹیلی فون کیا یہ کہنے کے لیے کہ ''حکومت اپنے عہدوں پر براجمان رہے، چونکہ ان کا شہر کے اندر داخل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔''
کرزئی نے کہا کہ ''میں نے اور کئی دیگر افراد نے کئی عہدے داروں سے بات کی اور ہمیں یقین دہانی کرائی گئی کہ ایسا ہی ہو گا، اور یہ کہ امریکی اور سرکاری افواج پختگی کے ساتھ موجود ہیں (اور) کابل کو فتح نہیں کیا جا سکتا''۔
جب شام کے دو بج کر 45 منٹ ہوئے، یہ بات معلوم ہوئی کہ غنی شہر سے فرار ہو گئے ہیں۔ کرزئی نے وزیر دفاع، پھر وزیر داخلہ کو فون کیا اور کابل پولیس کے سربراہ سے رابطے کی کوشش کی۔ مگر سبھی شہر چھوڑ چکے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ''شہر میں کوئی عہدیدار موجود نہیں تھا، پولیس چیف، کور کمانڈر سے لے کر فوجی یونٹوں تک تمام لوگ جا چکے تھے''۔
غنی کی حفاظت پر مامور یونٹ کے معاون سربراہ نے کرزئی کو ٹیلی فون کیا کہ آپ صدارتی محل آئیں اور ملک کی صدارت سنبھالیں۔
انکار کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ قانونی طور پر انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس منصب پر بیٹھیں۔ اس کے برعکس، سابق صدر نے ٹیلی ویژن پر ایک بیان جاری کیا۔ اس وقت ان کے بچے ان کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے ''تاکہ افغان عوام کو بتایا جائے کہ ہم سب یہاں موجود ہیں''۔
کرزئی اس بات پر مصر تھے کہ اگر غنی کابل ہی میں ہوتے تو پرامن عبوری دور کا معاملہ طے ہو جاتا۔
بقول ان کے، ''یقیناً۔ یقینی طور پر ہم اسی معاملے کی تیاری کر رہے تھے۔ ہم اسی شام یا اگلی صبح امن کونسل کے چیئرمین کو دوحہ روانہ کرنے والے تھے تاکہ سمجھوتے کو آخری شکل دی جا سکے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ طالبان رہنما دوحہ میں ہمارے منتظر تھے، اسی مقصد کے لیے۔''
آج کل کرزئی روزانہ کی بنیاد پر طالبان قیادت سے ملتے رہتے ہیں اور وہ اس پر زور دیتے ہیں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا ان کے ساتھ رابطہ قائم کرے۔
انھوں نے کہا کہ ''یہ بات بھی اتنی ہی اہم ہے کہ تمام افغان متحد ہوں۔ افغانستان میں 40 سال سے زائد عرصے سے لڑائی کا دور دورہ رہا ہے، اور گزشتہ 20 برس سے ہر طرف سے افغانوں کا نقصان ہوا ہے۔ تمام افغان فریقوں کی جانیں گئی ہیں۔ افغان فوج کو نقصان پہنچا ہے۔ افغان پولیس کو نقصان ہوا ہے۔ طالبان سپاہیوں کو نقصان پہنچا ہے۔''
انھوں نے مزید کہا کہ جب افغان متحد ہوں گے تو مسائل کا حل نکل آئے گا۔
سابق افغان صدر کے بقول، ان پاس ایک منصوبہ ہے۔ طالبان کے ساتھ بات چیت کے دوران وہ عارضی طور پر آئین کو معطل کرنے کی وکالت کرتے رہتے ہیں۔ کرزئی نے دوحہ مذاکرات کے دوران بھی اس سے متعلق ایک بیان دیا تھا۔
انہوں نے تجویز کیا کہ ساتھ ہی، ایک روایتی 'لویہ جرگہ' کا اجلاس بلایا جائے، جو تمام افغانوں پر مشتمل 'گرینڈ کونسل' کا درجہ رکھتا ہو، جس میں خواتین بھی شامل ہوں۔ جرگے میں ملک کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے، جس میں ایک نمائندہ حکومت، آئین اور قومی پرچم کا معاملہ طے کیا جائے۔
اب تک اس قسم کا کوئی عندیہ نہیں کہ طالبان یہ فارمولہ تسلیم کریں گے، حالانکہ کرزئی کا کہنا ہے کہ بات چیت کے دوران طالبان نے اس تجویز کو مسترد نہیں کیا۔
کرزئی نے کہا کہ افغانستان کے مستقبل کا انحصار لڑکوں اور بچیوں کی تعلیم کے حصول پر ہے۔ خواتین کو افغان معاشرے، انتظامیہ، معیشت اور سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں کردار ادا کرنا ہو گا۔ ان معاملات پر کوئی سودے بازی نہیں ہو سکتی۔
لیکن، جب تک ایسا ہو، دنیا کو چاہیے کہ وہ طالبان کے ساتھ روابط رکھے۔ افغانستان کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دی جانی چاہئیں۔ صحت عامہ کی سہولیات کو کام کرنے دیا جائے۔
کرزئی کے الفاظ میں، ''اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ ہر صورت میں حکومت کے ساتھ تعاون کریں''۔
انھوں نے طالبان کے بارے میں ''غلط بین الاقوامی تاثر'' کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ اس بیانیے کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ خواتین اور بچیوں کو بغیر محرم گھر سے باہر نکلنے نہیں دیا جاتا، درست نہیں۔ ان کے بقول، ''یہ بات درست نہیں ہے۔ آپ کو سڑکوں پر بچیاں نظر آئیں گی، خواتین بھی نظر آئیں گی۔ کابل کی اصل زمینی صورت حال یہی ہے''۔
اس سوال پر کہ وہ طالبان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، کرزئی نے کہا کہ ''میں انھیں افغان سمجھتا ہوں، لیکن ان افغانوں کو زندگی کے تلخ حقائق سے واسطہ رہا ہے، جیسا کہ گزشتہ 40 برسوں سے دراصل تمام دیگر افغانوں نے تکالیف ہی دیکھی ہیں''۔
کرزئی نے کہا کہ ہم اپنی تاریخ کے انتہائی مشکل دور سے گزرے ہیں۔ تمام افغانوں سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ بین الاقوامی برادری اور وہ تمام فریق جنھوں نے ہمارے ساتھ رابطہ رکھا انھوں نے بے انتہا غلطیاں کی ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم سب اس بات کا احساس کریں، اپنی غلطیوں پر نظر ڈالیں اور سبھی حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)