بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ نے منگل سے وادی کے مختلف حصوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت کیا گیا ہے جب ایک روز بعد بدھ کو بھارتی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال مکمل ہو رہا ہے۔
سول ایڈمنسٹریٹر شاہد اقبال چوہدری نے کہا ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر وادی کے صدر مقام سرینگر میں لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔ ان کے بقول حکام کو اطلاعات مل رہی تھیں کہ بھارت مخالف کچھ گروہ پانچ اگست کو یومِ سیاہ کے طور پر منانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور انہوں نے مظاہروں کا بھی انتظام کر رکھا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے اہلکار لوگوں کے گھروں پر جا کر انہیں گھروں میں رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ حکومتی فورسز نے سڑکوں، پلوں اور چوراہوں پر رکاوٹیں اور خار دار تاریں بھی لگائی ہوئی ہیں۔
شاہد اقبال چوہدری نے حکم نامے میں کہا ہے کہ کرفیو منگل اور بدھ کو نافذ العمل رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایسی کئی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ علیحدگی پسند اور پاکستان کے حمایت یافتہ گروہ پانچ اگست کو یومِ سیاہ کے طور پر منانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس دوران کسی پرتشدد کارروائی یا مظاہروں کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے کہا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ نے پانچ اگست 2019 کے اقدامات کے ایک سال بعد بھی مسلم اکثریتی علاقوں میں سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
تنظیم کی جانب سے منگل کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں اظہار رائے پر پابندی، معلومات تک رسائی، صحت اور تعلیم کی سہولیاف کی فراہمی سے بھی وادی کے عوام کو محروم رکھا جا رہا ہے۔
جنوبی ایشیا میں ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل کو بتایا بھارتی حکومت نے اس اقدام کے وقت کہا تھا کہ اس سے کشمیریوں کا معیار زندگی بہتر ہو گا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ایک سال کے دوران لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے ہزاروں افراد کو گرفتارکرلیا گیا جن میں تین سابق وزرائے اعلی کے علاوہ ممتاز سیاسی رہنما بھی شامل تھے۔
بھارتی حکومت نے ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ پر تا حال کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ لیکن ماضی میں بھارت کی حکومت اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی تردید کر رہی ہے۔
ادھر منگل کو پولیس نے ایک مقامی صحافی قاضی شبلی کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ151 کے تحت نظر بند کر کے سرینگر کی مرکزی جیل بھیج دیا ہے۔ پولیس نے مقامی اخبار کے مدیر قاضی شبلی کو چار دن پہلے حراست میں لیا تھا۔ انہیں حال ہی میں جیل میں کئی ماہ گزارنے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔
مقامی صحافیوں نے قاضی شبلی کی دوبارہ گرفتاری پر شدید احتجاج کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ پانچ اگست 2020 کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال مکمل ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال اسی دن بھارتی حکومت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بھارتی آئین کی ان شقوں کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔
بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد ریاست جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں کا درجہ دے دیا تھا۔ بھارتی حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ یہ اقدامات وہ کشمیریوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے کر رہی ہے۔
اس اقدام سے قبل بھارتی حکومت نے پانچ اگست کو ہی کشمیر میں سخت کرفیو نافذ کیا تھا۔ لاک ڈاؤن اور کرفیو کی سخت پابندیاں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کئی مہینوں تک جاری رہی تھیں۔
اس دوران وادی میں مواصلاتی ذرائع بھی بند تھے۔ کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کے علاوہ علیحدگی کے حامی ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے سیکڑوں اب بھی حراست میں ہیں۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے کئی مہینوں بعد جب کشمیر میں معمولاتِ زندگی بحال ہونا شروع ہوئے اور پابندیوں میں نرمی کی جانے لگی تو کرونا وائرس کی عالمی وبا نے کشمیر کو دوبارہ سخت لاک ڈاؤن میں دھکیل دیا۔ بھارتی حکومت نے مارچ 2020 میں وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے وادی میں دوبارہ لاک ڈاؤن کیا تھا۔
کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے بھارتی کشمیر میں لاک ڈاؤن اب بھی جاری ہے۔ کرفیو کے نفاذ کے لیے جاری ہونے والے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے جاری علیحدہ لاک ڈاؤن کو آٹھ اگست تک بڑھایا جا سکتا ہے۔