پشاور ہائی کورٹ نے جبری گمشدگی کے ایک مقدمے میں آئی ایس آئی کے سربراہ سمیت دو محکموں کے اعلٰی حکام کو طلب کر لیا ہے۔
عدالت نے وفاقی وزارتِ دفاع اور صوبائی محکمۂ داخلہ کی جانب سے متضاد مؤقف سامنے آنے پر دونوں محکموں کے حکام کو 14 اکتوبر کو پیش ہونے کے لیے نوٹسز جاری کیے ہیں۔
اپریل 2015 میں خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے انصاف شاہ نامی ایک شخص کو مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا۔
انصاف شاہ کے رشتہ داروں نے پشاور ہائی کورٹ میں قائم تحفّظ برائے انسانی حقوق کے سیل اور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ انصاف شاہ کو رہا کیا جائے۔
ان کے رشتہ داروں نے مطالبہ کیا تھا کہ اگر انصاف شاہ کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔
پشاور ہائی کورٹ میں تراب خان نامی شخص کی دائر کردہ درخواست میں وکیل رضا خان صافی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ انصاف شاہ کے بارے میں دو مختلف سرکاری محکموں کا متضاد مؤقف سامنے آیا ہے۔
لہٰذا، پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے وفاقی وزارتِ دفاع اور صوبائی محکمۂ داخلہ کو وفاقی تحقیقاتی ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سمیت متعدد افسران کو 14 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
رضا خان صافی نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ انصاف شاہ کو سامنے لایا جائے۔ اگر وہ بے گناہ ہیں تو انہیں رہا کیا جائے اور اگر کوئی قانونی خلاف ورزی کی ہے تو عدالت میں پیش کر کے صفائی کا موقع دینا چاہیے۔
پشاور میں انسانی حقوق کمیشن کے علاقائی سربراہ شاہد محمود نے بھی رضا خان صافی ایڈووکیٹ کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگی کے شکار تمام لوگوں کو عدالتوں میں پیش کر کے صفائی کا موقع دینا چاہیے اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جانا چاہیے۔
خیبر پختونخوا کے وزیرِ قانون سلطان محمّد خان نے کہا کہ جبری گمشدگی کے کئی رخ ہیں۔ کچھ لوگ اپنی گھریلو مشکلات کے باعث اپنی مرضی سے کہیں چلے جاتے ہیں اور کچھ جرائم اور دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہونے کے باعث کہیں چھپ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے اور تمام افراد کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔
سابق سینیٹر اور انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ دو سرکاری محکموں کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آنے سے رشتے داروں کو مایوسی ہوتی ہے۔ لہٰذا، حکومت، پارلیمان اور عدلیہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت میں آنے سے قبل حکمران جماعت کے رہنماؤں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ گمشدہ افراد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کریں گے۔ لہٰذا، اب قانون سازی پر غور کیا جائے۔
واضح رہے کہ ملک کے دیگر صوبوں اور علاقوں کے برعکس خیبر پختونخوا بالخصوص قبائلی اضلاع میں جبری گمشدگی کا مسئلہ انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے۔
اسی مسئلے کی بنیاد پر پشتون تحفّظ تحریک کا قیام بھی عمل میں آیا تھا اور تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی وقتاً فوقتاً گمشدہ افراد کی بازیابی اور اُنہیں عدالتوں کے سامنے پیش کرنے کے مطالبے کیے جاتے رہے ہیں۔