کراچی میں ایک ہفتے میں مبینہ طور پر دو صحافی لاپتا ہو گئے لیکن پولیس نے اب تک ان واقعات کا مقدمہ درج نہیں کیا ہے۔
صحافتی تنظیموں کی جانب سے گمشدگی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی رات کراچی کے علاقے گلستان جوہر کے رہائشی سید مشبہ علی زیدی کو نامعلوم افراد ان کے دفتر کے باہر سے اس وقت اپنے ساتھ لے گئے جب وہ اپنی ڈیوٹی ختم کر کے گھر واپس جا رہے تھے۔
25 سالہ سید مشبہ علی زیدی ’اب تک نیوز‘ میں کیمرہ مین ہیں۔ ان کے بھائی سید عاقب علی نقوی کا کہنا ہے کہ مشبہ کے ساتھ موجود دوستوں نے انہیں بتایا کہ انہیں ایک ڈبل کیبن گاڑی میں سوار سادہ لباس میں ملبوس نامعلوم افراد اپنے ساتھ لے گئے۔ اس دوران ایک اور گاڑی میں موجود ایک شخص مشبہ کی موٹر سائیکل بھی لے گیا۔
مشبہ کی گمشدگی پر کورنگی انڈسٹریل ایریا تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کے لئے درخواست بھی دے دی گئی ہے۔
اہل خانہ کے مطابق درخواست دیے جانے کے کئی گھنٹے بعد بھی اس پر کوئی ایکشن لیا گیا اور نہ ہی ایف آئی آر درج کی گئی۔
اہل خانہ نے مشبہ علی زیدی کا تعلق کسی بھی سیاسی یا کسی اور تنظیم سے ہونے کی تردید کی ہے۔
گزشتہ ہفتے روزنامہ ’جنگ‘ سے تعلق رکھنے والے مطلوب حسین موسوی کو بھی نامعلوم افراد انہیں گھر سے اٹھا کر لے گئے تھے۔ اہل خانہ نے بتایا کہ مطلوب موسوی کو لے جانے والے افراد سادہ لباس میں ملبوس تھے اور وہ ان کا موبائل فون اور لیپ ٹاپ بھی لے گئے۔
مطلوب موسوی جامعہ کراچی میں زمانہ طالب علمی میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے منسلک رہے ہیں تاہم ان کے بھائی منہاج موسوی کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق کبھی بھی کسی فرقہ وارانہ تنظیم سے نہیں رہا اور وہ معتدل خیالات کے مالک ہیں۔
اس واقعے کے بارے میں متعلقہ تھانے کو آگاہ کیا جا چکا ہے مگر ابھی تک ایف آئی آر کا اندراج نہیں ہو سکا ہے۔
اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ جبری لاپتا ہونے والے صحافیوں کو اپنے ساتھ لے کر جانے والے افراد کون تھے، لیکن دونوں واقعات میں جس انداز سے صحافیوں کو اٹھایا گیا ہے اس سے یہ شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انہیں بعض تفتیشی ادارے اٹھا کر لے گئے ہیں۔
پولیس کی جانب سے اس بارے میں ابھی تک کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔
اس صورت حال پر صحافیوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز فاران نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صحافیوں کے یکے بعد دیگرے لاپتا ہونے کے واقعات افسوسناک اور تشویش کا باعث ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کے پاس ان کے خلاف کوئی بھی ٹھوس شواہد یا ثبوت ہیں تو صحافتی تنظیمیں ایسے ملزم کا ساتھ نہیں دیتیں، مگر دوسری جانب تفتیشی اداروں کو بھی انہیں قانون کے تحت عدالتوں میں پیش کر کے باقاعدہ تفتیش کرنی چائیے۔ کسی کو جبری لاپتا کرنے کا طریقہ درست نہیں۔
اس سے قبل بھی گزشتہ سال روزنامہ "نئی بات'' سے منسلک کراچی پریس کلب کے رکن نصراللہ چوہدری کو بھی قابل اعتراض لٹریچر رکھنے کے الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا اور ان کے خلاف انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان کا مقدمہ چل رہا ہے اور عدالت ان کی ضمانت منظور کر چکی ہے۔
صحافی تنظیموں نے ایک ہفتے میں دو صحافیوں کی مبینہ جبری گمشدگی پر احتجاج کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کی کال دی گئی ہے۔